سیاسیمضامین

بہار کے مسلمان ہوشمندی اور بصیرت سے کام لیں

مظاہرحسین عماد عاقب قاسمی

بہار میں مسلمانوں کی آبادی سرکاری اعداد و شمار کے لحاظ سے سترہ فیصد ہے ، سیمانچل کے کئی حلقوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں ،اور سیمانچل کے زیادہ تر حلقوں میں مسلمان چالیس فیصد ہیں ، مگر مسلمانوں کا ووٹ کئی سیکولر پارٹیوں میں تقسیم ہوجانے کی وجہ سے سیمانچل کے اضلاع کٹیہار ،پورنیہ اور ارریہ کے زیادہ تر اسمبلی حلقوں سے فرقہ پرست بی جے پی کے امیدوار کامیاب ہوجاتے ہیں ،

ارریہ ،کٹیہار اور پورنیہ پارلیمانی حلقوں سے بھی بی جے پی کے امیدوار گذشتہ کئی انتخابات سے کامیاب ہورہے ہیں ، حالیہ الیکشن میں مسلمانوں کے ووٹوں کے دعویداروں کی تعداد بڑھ گئی ہے ، تلنگانہ میں صرف آٹھ سیٹوں پر الیکشن لڑنے والے مرد مجاہد اسدالدین اویسی صاحب نے نہ یہ کہ صرف اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں ، بلکہ کچھ غیر مشہور اور لالچی قسم کے ابن الوقتوں سے اتحاد بھی کیاہے.

دوسری طرف غریبوں کی مسیحائی اور سخاوت میں مشہور پپو یادو نے بھی ایک نیا اتحاد قائم کیا ہے میرا اندازہ ہے کہ پپو یادو صاحب کا اتحاد اور اسد الدین صاحب کا اتحاد ،دونوں مل کر بھی دس سیٹوں سے زیادہ نہیں جیت پائیں گے ، مگر یہ دونوں بہت ساری سیٹوں پر مہاگٹھ بندھن کا ووٹ کاٹ کر بی جے پی اتحاد کی کامیابی کا سبب بن سکتے ہیں، میں بہار کے مسلمانوں کو یوپی اور جھارکھنڈ کے مسلمانوں سے سبق حاصل کرنے کی گذارش کرتا ہوں ،

اگر 1991 کے یوپی اسمبلی الیکشن میں یوپی کے تمام مسلمانوں نے متحد ہوکر ملائم سنگھ کو ووٹ کیا ہوتا تو بی جے پی کی حکومت نہ بنتی ، کلیان سنگھ وزیر اعلی نہ بن پاتے ،اور نہ ہی بابری مسجد شہید ہوپاتی ، بابری مسجد کو کلیان سنگھ اور بی جے پی نے شہید کروایا ، اور نرسمہا راؤ نے بابری مسجد کو شہید ہونے دیا، اگر بابری مسجد شہید نہ ہوئی ہوتی تو بابری مسجد کے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی کچھ اور ہوتا بابری مسجد کی شہادت کی جتنے ذمے دار ،بی جے پی والے اور نرسمہا راؤ وغیرہ ہیں ، اتنے ہی ذمے دار پورے ہندوستان کے مسلمان ہیں، خاص طور سے یوپی کے مسلمان زیادہ ذمے دار ہیں، ان کی سیاسی بے بصیرتی نے بابری مسجد کی شہادت کے اسباب فراہم کیے،

گذشتہ سال جھارکھنڈ میں اسمبلی کے انتخابات ہوئے ،وہاں بھی اسد الدین اویسی صاحب نے چودہ امیدوار کھڑے کیے تھے اور ان کے جلسوں میں کافی بھیڑ بھی نظر آتی تھی ، سی اے بل پاس ہوچکا تھا ، ایسے حالات میں خدشہ یہ تھا کہ مسلم ووٹ تقسیم ہوجائے گا ، اور بی جے پی پہلے سے زیادہ مضبوط ہوجائے گی ، مگر جھارکھنڈ کے کم تعلیم یافتہ مگر بابصیرت مسلمانوں نے قائدملت اسدالدین اویسی صاحب کے جلسوں میں جاکر اور ان کی پرجوش تقریریں سن کر ان کا بہترین خیر مقدم کیا ، ان کا حوصلہ بڑھایا ،مگر ووٹ جے ایم ایم ،کانگریس اور آرجے ڈی اتحاد،یعنی مہاگٹھ بندھن کو دیا ،

آپ کو مہاگٹھ بندھن سے بھی کچھ شکایتیں ہوسکتی ہیں ، مگر آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ گزشتہ چند سالوں میں ہوئے انتخابات کے نتائج کیا رہے ،بی جے پی اتحاد گذشتہ چھ سالوں سے کیسے کیسے مظالم ڈھارہاہے ، کانگریس نے تو صرف مسلمانوں کو نظر انداز کیا تھا ،مگر بی جے پی تو ہمارے تمام حقوق چھین رہی ہے، کانگریس کے خلاف ہماری دو اہم شکایات تھیں

1- سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کی تعداد کو کم کیا ، یعنی نوکریوں میں مسلم نوجوانوں کو نہیں لیا گیا ،اور آزادی کے وقت سرکاری نوکریوں میں مسلمان پینتیس فیصد تھے ،جواب گھٹ کر دو تین فیصد یا اس سے بھی کم ہوگئے، مگر یہ جان لیں کہ بی جے پی سرکار کے پاس تین ہزار کروڑ کی پٹیل جی کی مورتی بنانے کے لیے پیسے ہیں ، مگر سرکاری ملازمین کو تنخواہ دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں ، مودی سرکار تمام سرکاری اداروں کو گجراتی بنیوں کے ہاتھوں بیچ رہی ہے ،
اب نہ ہندووں کو سرکاری نوکری ملے گی اور نہ مسلمانوں کو ،

2- دوسری بڑی شکایت یہ تھی کہ کانگریس حکومت فسادات پر کنٹرول نہیں کر پاتی ، اب فساد کرانے والے ہی حکومت میں ہیں ، اب ان کو فساد کراکر مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ہندوؤں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ، اب وہ مسلمانوں ،کسانوں ، دلتوں اور پسماندہ طبقات کے حقوقِ کو سلب کرنے اور ختم کرنے کے قوانین بنارہے ہیں ،

کانگریس کے زمانے میں مسلمان اپنا دستوری حق مانگ سکتے تھے، کانگریس نے ایک ایسا دستور بنایا تھا جو ہندوستان کے تمام طبقات کے لیے قابل قبول تھا ، یہ اور بات ہے کہ وہ دستور ہند کے مقاصد و مطالبات پر سو فیصد عمل نہیں کرپارہی تھی ، مگر بی جے پی تو دستور سے بھی آپ کے حقوق کو مٹارہی ہے، آپ کو کانگریس کا نعم البدل ڈھونڈھنے کی مکمل آزادی ہے، مگر ہندوستان کے تمام ووٹ دہندگان خاص طور سے مسلم ووٹ دہندگان نے گذشتہ چند انتخابات میں جس بے بصیرتی کا ثبوت دیاہے ،اس سے ہماراملک ہندوستان بہت کمزور ہوا ہے ، انیس سو پچانوے سے دوہزار پانچ تک ، نتیش کمار ،اور رام ولاس پاسوان وغیرہ نے لالو پرساد کو بدنام کیا ،ان کی حکومت کو جنگل راج کہا ،

مگر پندرہ سالوں کا نتیش دور کسی بھی اعتبار سے لالو دور سے بہتر نہیں تھا ،اب تو نتیش ستر سال کے بوڑھے بھی ہوگئے اور بی جے پی ان کے اوپر پوری طرح حاوی ہوگئی ہے، ہندوستان میں بڑے سوشلسٹ لیڈروں میں صرف لالوپرساد ہی ہیں جنہوں نے کبھی بھی فرقہ پرست بی جے پی سے نہ سمجھوتہ کیا اور نہ ہی اس سے کوئی مدد لی ، سو فیصد سوشلسٹ لیڈر صرف لالوپرساد ہی ہیں ، نتیش کمار تو چوبیس سالوں سے فرقہ پرستوں کی خدمت کررہے ہیں، مکاری اور عیاری میں وہ اپنی مثال آپ ہی ،

پاسوان کی موقع پرستی اور ابن الوقتی مشہور ہے ، شردیادو کا دامن بھی سوشلزم کے خون سے آلودہ ہے، بہار سے نتیش سرکارکو ختم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے نتیش نے گزشتہ پندرہ سالوں میں لالو اور رابڑی کی پندرہ سالہ حکومت کی خامیاں بیان کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا ہے، اور بی جے پی کے ہر برے کام میں اس کی مدد کی ہے. ضرورت ہے کہ اب بہار کے مسلمان ہوشمندی اور بصیرت سے کام لیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!