خبریںقومی

مذہبی منافرت پھیلانے کا جرم ثابت ہوچکا تھا پھر سی بی آئی عدالت نے کیسے بری کردیا؟ آل انڈیا علماء بورڈ

شہادت بابری مسجد کے فوجداری مقدمہ میں سی بی آئی عدالت کا فیصلہ فہم سے بالاتر: آل انڈیا علماء بورڈ

آل انڈیا علماء بورڈ (رجسٹرڈ) کے قومی مجلس عاملہ کی ہنگامی میٹنگ کا احمد نگر (مہاراشٹر) میں انعقاد

نئی دہلی: یکم اکٹوبر (اے یو) شہادت بابری مسجد کے فوجداری مقدمہ میں سی بی آئی عدالت کے ذریعے سبھی ملزمین کو بری کردیا جانا فہم و فراست سے بالاتر ہے۔ کم و بیش ۸۲ سال انتظار کے بعد برآمد ہوئے ”لا یعنی انصاف“ نے عام مسلمانوں اور انصاف پسندوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔اگر عدالتوں میں ہی ثبوتوں، دلائل اور شواہد کو مبینہ طور پر نذر انداز کرتے ہوئے خاطیوں کو بخش دیا جائے گا تو پھر وہ انصاف کے حصول کی خاطر مستقبل میں کس سے اور کیسے فریاد کریں گے۔ اس طرح کے شدید رد عمل کا اظہار آل انڈیا علماء بورڈ (رجسٹرڈ) کی مہاراشٹر کے احمد نگر میں منعقدہ قومی مجلس عاملہ کی ہنگامی میٹنگ میں کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے وکیل اور بورڈ کے قومی جنرل سکریٹری (آرگنائزیشن) ایڈوکیٹ راشد نسیم صدیقی نے کہا کہ سی بی آئی عدالت کا مذکورہ فیصلہ تقریبا ۰۰۳۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ جس کو مکمل طور پر پڑھنے کے بعد ہی بنیادوں تک پہنچا جاسکے گا۔ لیکن بری کئے گئے سبھی ملزمین چونکہ تعزیرات ہند کی دفعہ ۳۵۱ (اے) کے تحت مذہبی منافرت پھیلانے کے ذمہ دار تھے۔ جس کے نتیجہ میں ہی بابری مسجد کو شہید کیا گیا اور اس بات کو سپریم کورٹ نے بھی بابری مسجد کے کیس کے حالیہ فیصلہ میں واضح طور پر تسلیم کیا ہے کہ 1992 میں جس عمارت کو شہید کیا گیا تھا وہ بابری مسجد تھی اور اس کا انہدام ایک مجرمانہ عمل تھا۔ لہذا بری کئے گئے سبھی ۲۳ ملزمین کا مذہبی منافرت پھیلانے کا جرم تو پہلے ہی ثابت ہوچکا تھا پھر بھی سی بی آئی عدالت کے ذریعے انھیں بری کردیاجانا نہایت افسوسناک ہے۔

قومی نائب صدر و سینئر صحافی نایاب انصاری نے کہا کہ اس فیصلہ سے مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی ہوئی ہے اور اس سے عدلیہ کے متعلق غلط پیغام عوام میں گیا ہے۔ اگر اس کے خلاف سی بی آئی اپیل بھی دائر کرے گی تو بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے برسراقتدار رہتے اسے محض ایک دکھاوا تصور کیا جائے گا۔ قومی جنرل سکریٹری (مالیات) وارث علی نے کہا کہ کسی معاملہ میں کچھ ملزمین کو بری کردیا جانا کسی حد تک درست ہوسکتا ہے لیکن سبھی ملزمین کو باعزت بری کردیا جانا سراسر مذہبی منافرت پھیلانے کے مترادف باب ہے اور مسلمان اس دن کو ہمیشہ یوم سیاہ کے طور پر یاد رکھیں گے۔

آخر میں قومی صدر مفتی مدثر خان قادری نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ لیگل جور سپرواڈنس کا تقاضہ ہے کہ جب عدالت کوئی فیصلہ صادر کرے تو نہ صرف یہ کہ انصاف ہو بلکہ ایسا دکھائی بھی دے کہ انصاف ہوا ہے۔ لیکن افسوس کہ سی بی آئی عدالت کا شہادت بابری مسجد کے ملزمین کے متعلق فیصلہ اس کے مغائر ہے۔ اس موقع پر محمد انظار خان ندوی، سید اکبر بمبئی والے، مولوی عثمان رحمان شیخ (مہاراشٹر صدر)، محمد شہاب الدین جاوید سوداگر (جنرل سکریٹری، مہاراشٹر)، رفیق گارینٹ (راجستھان صدر)، اشفاق نقوی (ایجوکیشن ونگ صدر جئے پور)، نور النساء انصاری (صدر خواتین ونگ)، نفیسہ ناصر (جودھپور)، ابراہیم گڈو (احمد آباد) سمیت دیگر ریاستوں کے عہدیداران بھی موجود تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!