ارطغرل غازی اور فکرِ جہاد
تحریر: ایس عبدالحسیب
بہت دنوں سے یہ خواہش تھی کی اس موضوع پر کچھ لکھ سکوں الحمداللہ آج وہ موقع عنایت ہوا ہے- دوستوں، کچھ دنوں پہلے ایک مشہور و معروف ڈرامہ سیریز منظر عام پر آچکا ہے۔
جس نے—-
٭ پوری دنیا میں کہرام مچا کر رکھ دیا ہے-
٭ باطل طاقوں اور فسطائی حکومتوں کو یلغار دی ہے-
٭ دنیا کے ہر خطہ ارض میں جگہ بنائی ہے-
ایک ایسا ڈرامہ جس سے میں اور آپ بخوبی واقف ہے-جی میں تذکرہ کررہا ہوں دیریلس ارطغرل غازی کا جو کہ عثمانیہ سلطنت کی عظیم تاریخ کو ایک بہترین انداز میں بتاتا ہے اس ڈرامے کو بنانے کا جو مقصد ہے کی نسل نؤ کو عثمانیہ سلطنت سے وابستہ کرانا ہے اگر آپ نے اس ڈرامے کو دیکھا ہے تو یقینا آپ کے اور میرے اندر جذبہ ایمانی اور جہاد کا جذبہ پیدا ہوا ہونگا-
آیئے اسی مثبت پہلوں کو صحیح رخ دے—-
ایک دن اللہ کے حبیب سرورِدوجہاں آقاِ ﷺ نے جہاد کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایہ کی “جہاد سبھی عباتوں میں افضل عبادت ہے”- جس کو کرنے سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور اللہ کی خوشنودی جنت کا پروانہ ہے-
جہاد کو سمجھے آسان طریقے سے—-
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کی حضرت عمررابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لانے کے بعد ایک دن مسجد نبویﷺ کے صحن میں بیٹھ کر توریت کو پڑھ رہے تھے کی اتنے میں وہاں سے نبی ﷺ کا گذر ہوا تو دیکھا کی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ توریت پڑھ رہےتھے یہ دیکھنا ہی تھا کی
نبی ﷺ کا چہرہ انور غصہ سے لال پیلا ہوگیا اور نبی ﷺ وہاں سے چل دیئے- بعد میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دریافت کرنے پر نبی ﷺ نے فرمایہ جو کہ میرے نزدیک ایک تاریخی جملہ ہے فرماتے ہے کی” ائے عمر اگر آج موسیؑ بھی موجود ہوتے جن پر توریت نازل ہوئی تو ان پر بھی آج قرآن پڑھنا لازم ہوتا نا کہ توریت”- اس واقعہ سے یہ گمان ہوتا ہے کی کچھ چیزیں وقتا فوقتا بدلتی ہے تو ایسے ہی آج دورِ جدید کا جہاد تعلیم ہوگا-
مولانا سید ابواعلیٰ مودودیؒ اپنی ایک کتاب “جہاد فی سبیل اللہ” میں لکتھے ہے کی دورِ جدید کا جہاد کیا ہے-
مولانا لکتھے ہے کی ” آج جہاد تلواروں اور جنگوں میں باقی نہیں رہ گیا بلکہ دور جدید کا اصل جہاد تعلیم ہے”-(بحوالہ- جہاد فی سبیل اللہ)
اللہ نے سبھی عبادتوں میں سب سے افضل عبادت جہاد کو قرار دیا ہے اب جو شخص جہاد کرتا ہے وہ اللہ کو محبوب ہے-
کیونکہ جہاد کیا جاتا ہے—-
٭ اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لئے
٭ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے
٭ دشمنانِ اسلام کے خلاف
٭ اللہ کی راہ میں جان اور مال لٹانے کے لئے
لیکن—-
دورِ جدید کا جو جہاد ہوگا وہ اس طریقے سے ہوگا کی—
آج جہاد کیا جائیگا—
٭ اللہ کے دین کو اللہ کی زمین پر نافذ کرنے کے لیئے
٭ تعلیم کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیئے
٭ فرعونِ وقت سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کے لیئے
٭ اللہ کی راہ میں جان اور مال لٹانے کے لیئے
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔۔
اُذِنَ لِلّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِاَنَّھُم ظُلِموُا وَاِنّ اللہ عَلَی نَصْرِھِمْ لَقَدِیرٌْ
“ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا،اور بیشک اللہ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے۔ (سورۃ الحج -39)
جہاد کن سے کرنا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟
وقت حاضر کی جو فسطائی طاقت اور باطل قووتیں ہے جو کہ دن بہ دن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پرپیگنڈا کررہے ہیں ان سے کرنا ہے جہاد بذریعہ تعلیم۔
ہم ہے حق وہ شمشیریں
جن سے ٹوٹے گی زنجیریں
باطل کو سمجھانے آئے ہیں
(ترکی زبان کہ ایک شعر کا ترجمہ)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔۔۔
وَقُل جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ (ج) اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقَا ّ
اور کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا۔ بے شک باطل نابود ہونے والا ہے۔
اللہ نے ہمیں شمشیر کو طور پراس دورمیں تعلیم عطا کی ہے جس کی بنیاد پر ہمیں اس دنیا سے باطل طاقتوں اورفسطائی حکومتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے اور اللہ کی سر زمین پر اللہ کے قانون کو نافذ کرنا ہے ۔
مجھے اس موقع سے وہ بات یاد آرہی ہے جو کہ میں نے اپنے دوست سے کہی تھی۔
وقت حاضر ہے لازم ہے کرنا ہوگا جہاد