اقلیتوں کے مسیحا، سیکولرزم کے دعویداروں سے ! اس سیاسی نابرابری کا ذمہ دار کون؟
28 میں صرف1 بس! کھلونا دے کے بہلایا گیا ہوں!
محمد نجیب الدین بگدل
لوک سبھا الیکشن 2019 کا دور دورہ ہے. سیاسی پارٹیوں میں امیدوار پارٹی ٹکٹ کو لے کر مختلف حالات سے دوچار ہیں. اپنے اپنے حلقہ کےچھوٹے بڑے سیاسی قائدین نے ٹکٹ کے لئے زورآزمائی اور اپنا اثر رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے پارٹی کے اندر مرکزی قیادت سے مطالبات کا لوہا منوا چکے ہیں. مختلف پارٹیوں نے انتخابات کے لئے اپنے امیدواروں کی فہرست بھی جاری کرچکی ہیں. ملک کی نامور سیاسی جماعتوں نے انتخابات کے لیے اپنے امیدواروں کو میدان میں لا کھڑا کر دیا ہے. سیاسی پارٹیوں کے یہ نمائندے اگر انہیں عوام منتخب کرتی ہے تو حکومت کے ایوانوں میں پہنچ کرعوام کے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں گے. ہندوستان جوکہ جمہوری ملک ہے اور جمہوریت پر یقین رکھتا ہے. یہاں پر عوام ہی اپنے نمائندوں کو ایوان اقتدار تک پہنچاتی ہے. اور حکومت کی باگ ڈور انہی کے ہاتھوں ہوتی ہے. قابل غور بات ہے کیا واقعی یہ نمائندے منتخب ہونے کے بعد عوامی مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ رہتے ہیں؟ خیر آج ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا ہے۔
ملک کے موجودہ حالات میں فرقہ پرستوں کی پشت پناہی کرنے والی پارٹیاں اور جمہوریت میں سیکولرزم کا دعویٰ کرنے والی پارٹیوں کے ذمہ داروں کے بیانات اور وعدوں پر ملک کے شہریوں کی نگاہیں بڑی امیدیں لگائے ہوئے ہیں. امن پسند ، جمہوری اصولوں اور اقدار پر یقین رکھنے والے شہریوں کے لیے اس ملک میں فرقہ پرستی سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے. خوف و ہراس کا ماحول بنا کر قانون کی دھجیاں اڑانے والے مجرم اور منافرت کا ماحول برپا کرنے والوں کو قانون کی ذرا برابر بھی پروا نہیں ہے. بھیڑ کے ذریعے دنگائیوں نے ہر طرف نفرت کو بڑھاوا دیا ہے. مذہبی منافرت، سماجی تفریق، ذات پات کو لے کر منصوبہ بند طریقوں سے سماج میں دہشت پھیلا رکھی ہے۔ ایسے وقت میں جب کہ ہر طرف فرقہ پرستوں نے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کو دنگائیوں کے ذریعہ ہر طرف خوف وہراس جیسا ماحول اس ملک میں بنا رکھا ہے۔ بھیڑ کے ذریعے عام شہریوں بالخصوص اقلیتوں اور دلتوں کی ہلاکتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ حکومتی نمائندے خاموش تماشائی بن بیٹھے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سنجیدہ اور امن پسند انصاف کے علمبردار تمام شہری اور سیاسی جماعتیں آگے بڑھیں۔ فرقہ وارانہ منافرت کی آگ کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے مذہبی رواداری اور آپس میں بھائی چارگی کی فضا کو پروان چڑھانے کی ہر ممکنہ کوشش کو جاری رکھیں۔
ورنہ۔۔۔
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
ذات پات اور اقلیتوں پر ڈھائے جا رہے مظالم کے علاوہ نابرابری اور سماجی منافرت کی صورتحال ہر جگہ دیکھنے کو مل رہی ہے۔
سیاسی پارٹیاں جو اقلیتوں کی محافظ ہونے کا ہمیشہ دعوی کرتی آ رہی ہیں وہ واقعی کیااقلیتوں کےحقوق کے پاسدار ہیں؟ آیا کیا وہ اپنی پارٹیوں کے اندر اس بات کو لے کرعملی طور پر کچھ کر دکھایا ہے یا پھر کر رہی ہیں؟ یاکتنا سنجیدہ ہیں؟
آپ کے پاس ان سوالوں کا جواب بالکل نفی میں ہوگا۔ اسی لئے ہمیں دوسروں سے گلہ نہیں اپنوں سے شکایت ہے۔
لوک سبھا انتخابات 2019 میں مختلف سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے امیدواروں کی فہرستیں جاری کر رکھی ہیں ان پر تجزیہ پیش کیا جائے تو اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ انہوں نےاپنے آپ کو سیکولر کہنے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹتی انہوں نے بھی مسلمانوں کو اپنے یہاں نمائندگی دینے سے بظاہر انکار کردیا۔ ریاست کرناٹک جہاں پر تقریبا 28 لوک سبھا کی نشستیں ہیں وہاں پر پارٹی نے اپنے امیدواروں کی فہرست کو جاری کیا ہے۔تعجب اس بات پر ہے کہ ان 28 نشستوں میں سے صرف ایک نشست کے لئےمسلم نمائندے کو ٹکٹ دیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ریاست کرناٹک میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے مزید مسلم نمائندوں کو امیدوار بنایا جاسکتا تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے مسلسل ملی مذہبی اور مسلم تنظیموں نے بالخصوص کانگریس پارٹی کے اعلی عہدیداران سے اس بات کا مطالبہ کیا تھا کہ علاقہ حیدرآباد کرناٹک ضلع بیدر سے ایک مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا جائے۔ کیونکہ یہاں آبادی کے مناسبت سے مسلمانوں کی اکثریت پائی جاتی ہے۔ اوراس بات کی امید بھی کی جارہی تھی کہ یہاں کی آبادی اس کے حق میں اپنا ووٹ دے کر کامیاب بنا سکیں۔ لیکن وہی ہواجو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ کب کانگریس نے مسلمانوں کی امیدوں کو پورا کیا ہے؟ کیاکبھی اس نے مسلم نمائندگی کو سیاست میں بھرپور حصہ لینے کی کوشش کرنے پر نمائندگی دی ہے؟ الغرض مسلم اور دلت تنظیموں کی جانب سے کیےجارہے اس مطالبہ کو پارٹی نے یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ریاستی نائب صدر جو کہ لنگایت طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ ہوسکتاکہ پارٹی کے مرکزی قائدین کے ہاں کچھ مجبوریاں رہی ہوں گی لیکن اگر کسی مسلم امیدوار کو پارٹی کی جانب سے ٹکٹ دیا جاتا اقلیتوں کی نمائندگی کی کو لے کر ایک اچھا پیغام اورخوش آئند اقدام ہوسکتا تھا۔کہاں ہیں وہ اقلیتوں کے نمائندے بن کر پارٹیوں کے اندر مختلف عہدوں پر اپنی ذاتی اور انفرادی حیثیت کو منوانے والے نام و نہاد مسلم لیڈرس جنہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ قوم اور قومی مفادات اپنی پارٹیوں کے ہاں کتنا معنی خیز ہے؟ بالخصوص آزادی ہند کے بعد عرصہ دراز تک ملک میں حکومت کرنے والی سیکولرازم کا ہمیشہ دم بھرنے والی کانگریس مسلمانوں کو سیاست میں حصہ داری کےلئے اپنے ہاں کیا منصوبہ رکھتی ہے؟ چونکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ عین انتخابات سے پہلے جبکہ امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ کا مطالبہ کیا جاتا ہے توکانگریس ہمیشہ سے ہی فرقہ پرست بی جے پی کی جیت کا بہانہ بنا کر مسلمانوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل کرنے کی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ یا پھر حکومتی ادارے جہاں پر مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سےمسلم امیدوار کی جیت یقینی ہوتی ہے وہاں پر بڑے منظم انداز سے اس حلقہ میں ریزرویشن کے سسٹم کو نافذ کیا جاتا ہے۔ دوران انتخابات اورحکومت بنانے کے بعد بھی یہی احساس ہمیشہ سے اس پارٹی نے جو دیا ہے وہ یہی ہے کہ مسلمان صرف ووٹ بینک ہے۔ مسلمانوں کو صرف ووٹ حاصل کرنے تک استعمال کیا جائے ان کے مسائل پر کوئی نمائندگی نہ ہو یہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کے علاوہ مسلم قائدین اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ بحیثیت قوم ان کے حقوق کی انہی کی پارٹی کے اندر پامالی ہورہی ہے لیکن اپنے آقاؤں کے غلامی میں بدمست ہیں۔ سیاسی طور پر یتیم اس قوم نے کبھی منظم کوشش نہیں کی کہ وہ اپنے حقوق کی لڑائی میں اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ امت کا نوجوان جو اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں میں کسی سے کم نہیں لیکن جذباتیت اور حالات کے تناظر میں احساس کمتری کا شکار ہوتے ہوئے صلاحیتوں کا ادراک کیے بغیر بے مقصد زندگی گزار رہا ہے۔ ایسی صورتحال کے باوجودامت کا ذمہ دار اور دانشور طبقہ اپنی ذمہ داریوں سے دور بھاگتا نظر آرہا ہے۔
مجموعی طور پر قوم سیاسی بصیرت اور بے لوث قائدین سے محروم ہو چکی ہے۔ ذاتی مفاد سے بڑھ کر قوم کے مفاد میں کھڑا ہونے والا کوئی سیاسی فرد مقام سے لے کر ملک کی سطح پر نظر نہیں آتا۔ امت جو کہ قیادت کی ذمہ دار ہے تعجب ہے کہ جو اپنا فرض منصبی بھلا کر وقتی طور پر حاصل ہونے والے ذاتی مفاد کے پیچھے مختلف سیاسی قائدین کا آلہ کار بنی ہوئی ہے۔ بحیثیت امت بالخصوص مسلمانان ہند اپنے سیاسی میدان میں میں بڑی حد تک پیچھے نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کے حقوق جو کہ ان کا جمہوری حق ہے۔ اس حقوق کی لڑائی میں خود مسلمانوں کو منظم منصوبہ بند اور اتحاد کے ساتھ عملی میدان میں اپنے آپ کو آگے بڑھاتے ہوئے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ نی نسل ہمارے اس سے خاموش مزاجی پر ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ بالخصوص نوجوان آگے بڑھیں۔ سیاسی میدان میں عوام کے درمیان رہتے ہوئے عوامی خدمت کے ساتھ ہمت اور عزم کا پیکر بن کر جمہوری حقوق کے حصول کے لیے جمہوری طریقوں کو اپناتے ہوئےعملی میدان میں آگے بڑھیں۔
