نئی تعلیمی پالیسی میں اچھا کیا ہے؟
سید معزالرحمان، ناندیڑ
ملک کی نئی تعلیمی پالیسی پر نقد و تبصرے جاری ہیںاور اقلیتوں کی جانب سے تشویش کا اظہا ر لازمی ہے حکومت کی بد نیتی پر شکوک و شبہات بھی واجبی ہیں ، لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہیکہ چونتیس سال بعدفرسودہ تعلیم کے نظام میں تبدیلی نا گزیر تھی اس پالیسی کے کچھ خوشگوار پہلو بھی ہیں یہ وہ نکا ت ہیں جن پر گفتگو ضروری محسوس ہوتی ہے ضروری اس لئے کہ عام مسلم نوجوان اس پر غور و فکر کریں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں موثر رول ادا کرسکیں ۔ اور ضروری اس لئے بھی کہ ملت میں یہ مزاج پہلے ہی سے عام ہیکہ ”پڑھ لکھ کر کچھ نہیں ہوگا“اگر ہم صرف مخالفت اور احتجاج کریں گے تو عصری تعلیم سے منہ موڑنے کا ایک اور موقع مل جائے گا۔ اور ملت کی تعلیمی پسماندگی میں مزید اضافہ ہوگا۔ یوں تو تعلیمی پالیسی پر ہر دس سال میں ریویو ہونا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہو سکااور اب تعلیمی نظام کے پورے ڈھانچے کو بدل دینا خود حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس کیلئے حکومت کے علاوہ تعلیمی اداروں ، اساتذہ، بڑی یونیورسٹی کی طلباءتحریکیں اور سماجی تنظیموں کو آگے آنا ضروری ہے۔ جب تک مسلم نوجوان تعلیم کے میدان میں آگے آکر زمام کار اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے تب تک حکومت سے کچھ اچھا کرنے کی امید نہیں رکھنا چاہئے ۔ غلط پالیسیوں پر احتجاج ضروری ہے لیکن اسکے ساتھ ہی کچھ کر دکھانے کے جذبے سے میدان عمل میں آنا ضروری ہے۔ بصورت دیگر ہم انقلابی امت سے ایک احتجاجی امت بن کر رہ ضائیں گے۔ ایک انقلابی امت کا طرز عمل کیا ہوگا ۔ ایک آدمی کی انگلی خرا ب ہو تو اسکا ہاتھ نہیں کاٹا جا تا۔ انقلاب کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیکہ سب کچھ بدل دیا جائے اور ایسا کبھی بھی ممکن نہیں ہوگا۔ ہندوستان میں اگر رام راجیہ قائم بھی ہوجائے تو احتجاج ہوگا اور اگر خلافت علی ٰ منہاج الرسول بھی قائم ہو جائے تو معاشرے کیاصلاح و تربیت کا کام ختم نہیں ہوگا تب بھی احتجاجوں کی گنجائش باقی رہے گی۔ حکومت کی بد نیتی پر شک کرنا اور اسکی پالیسی کے خلاف بولنا ایک سیاسی حربہ ہو سکتا ہے لیکن عمل کی دنیا میں انقلابی امت صرف احتجاج پر اکتفا نہیں کرسکتی ۔
تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟؟
۱۔سب سے پہلے نئی تعلیمی پالیسی کا اس نقطہ نظر سے مطالعہ کرنا چاہئے کہ ملت کی زبوں حالی کو ختم کرنے کیلئے اس پالیسی کے رہتے ہوئے ہم کیا کیا کرسکتے ہیں ؟ ۲۔ نئی تعلیم پالیسی میں کونسے نکا ت ایسے ہیں جس سے ملک کی تعمیر وہ ترقی کی راہ ہموار ہوگی؟ ۳۔ نئی تعلیمی پالیسی سے روزگار کے کون سے نئے مواقع سامنے آرہے ہیں؟ ۴۔ مسلم نوجوان نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق کیا کیا خدمات انجام دے سکتے ہیں ؟ ۵۔خصوصاً تعلیم کے ڈیجی ٹلائزیشن میں کیسے اپنی جگہ بنا سکتے ہیں ؟
٭لینگویج بیریر ختم کیا جارہا ہے۔پانچوین جماعت تک مادری زبان میں تعلیم ہوگی۔ اس سے اسکول جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ ڈراپ آﺅٹس کی تعداد کم ہوگی ۔ جہاں اردو میڈیم اسکولس موجودہیں وہ فوری ڈیجی ٹلائزیشن کی جانب توجہ دیں اور جہاں نہیں ہیں وہ قائم کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔
٭ اعلیٰ تعلیم کی جانب مسلم طلبہ نہیں جا پاتے اور جاتے بھی ہیں تو بیچ میں تعلیم ادھوری چھوڑ کر ڈراپ آﺅٹ ہو جاتے ہیں ملٹی ڈسپلنری ایجوکیشن اداروں سے ڈراپ آﺅٹس کی تعداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔
٭سائنس اور آرٹس کے درمیان کی خلاءد ور ہوگی، مثلاً فزکس کے ساتھ کوئی نوجوان سوشیولوجی بھی پڑھی جاسکے گی ۔ اس طرح کاﺅنسلنگ کی اہمیت بڑھ جائے گی اور اچھے کونسلرس کی ضرورت بڑھ جائے گی۔
٭کرئٹیو تھنکنگ پروان چڑھے گی۔ ایکیڈمک بینک آف کریڈٹ بنانے سے سابقہ تعلیم کی اہمیت برقرار رہے گی اور پڑھائی کچھ سالوں تک موقر کرکے دوبارہ جاری کرنے میں دشواری نہیں رہے گی ۔
٭ووکیشنل ایجوکیشن سے بچون میں کئی اسکلز پروان چڑھین گی او روہ اپنے ہنر کے ساتھ زیادہ پروڈکٹیو فرد بن کر سامنے آئیں گے۔ نمبر سسٹم ختم کرکے جب ’میک اوور رپورٹ‘ بنائی جائے گی تو طلباءکا غیر ضروری تناﺅ ختم ہوگا۔
٭ تعلیم کی بڑے پیمانے پر توسیع کیلئے ’ایکسپانشن آف ایجوکیشن ‘ کا جو نقشہ پیش کیا گیا ہے اس میں رنگ بھرنے کیلئے مسلم طلبہ و طالبات کو گے آنا چاہئے ۔ حکومت چاہتی ہیکہ 2040ءتک تمام انسٹٹیوٹس کو ملٹی ڈسپلنری اداروں میں تبدیل کیا جائے ۔2030ءتک ہر ضلع میں ایک ملٹی ڈسپلنری ادارہ ہو۔2035ءتک انرول منٹ ریشو 50فیصد تک بڑھایا جائے ان اقدامات سے ایجوکیشن میں روزگار کے مواقع کھلیں گے اور ٹیچرس ایجوکیشن کی اہمیت بڑھ جانے کے بعدصرف قابل اساتذہ ہی تعلیم کے میدان میں آپائیں گے ، اس طرح اساتذہ کے سماجی وقار میں بھی اضافہ ہوگا۔ نئی ایجوکیشن پالیسی میں فیس کے ریگولیٹری سسٹم بنائے جانے کے ساتھ ساتھ خانگی اداروں کو بھی بڑے پیمانے پر تعلیمی اداروں کو کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔
مسلم نوجوان اچھے تعلیمی ادارے کم فیس میں زیا دہخدمت کرسکتے ہیں اور پیسہ بھی کما سکتے ہیں ۔
٭نئی تعلیمی پالیسی کی ایک اور خاص بات یہ بھی ہیکہ سماجی کارکنوں اور رضاکاروں کوتعلیمی اداروں میں انٹری کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ یہ موقع جہاں سنگھ کے رضاکاروں کو حاصل ہے وہیں اسلامی تنظیموں اور تحریکوں کیلئے بھی نعمت غیر مترقبہ ہے اس کا بھر پور فائدہ اٹھا چاہئے اور ہر دینی جماعت نے اپنے کچھ نا کچھ رضاکاروں کو تعلیمی اداروں کیلئے فارغ کرنا چاہئے
ہے یاد مجھے نکتئہ سلمان خوش آہنگ
دنیا نہیں مردان جفا کش کیلئے تنگ