خبریںقومی

جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری کا اجلاس، منظورکی گئی قراردادیں

نئی دہلی:26/اگست (اے این این) 23تا25 اگست2020 کو جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں یہ قراردادیں منظورکی گئیں۔ مرکزی مجلس شوری جماعت اسلامی ہند کا یہ اجلاس اس وقت منعقد ہورہا ہے جب ملک ایک طرف تو کووڈ کی تباہ کاریوں سے دوچار ہے دوسری طرف سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے ۔

جماعت اسلامی کا یہ اجلاس ملک کے تمام باشندوں کو کووڈ سے سبق لینے اور اپنے حقیقی خالق و مالک کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی بھیجی ہوئی تعلیمات کو نظر انداز کرکے انسانی معاشرے کی تشکیل کی جتنی صورتیں اختیار کی گئی ہیں ان سب کے بڑے نقائص اور عیوب بے نقاب ہوچکے ہیں اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت شدید تر ہوگئی ہے ۔

جماعت اسلامی کا یہ اجلاس کووڈ کے نتیجے میں ہونے والی اموات کے سلسلے میں تعزیت کا اظہار کرتا ہے اور ان تمام افراد اور خاندانوں سے ہم دردی کا اظہار کرتا ہے جو کووڈ سے متاثر ہیں، اس کے نتیجے میں ہونے والی مالی پریشانیوں سے دوچار ہیں ، یا اس دوران اظہار رائے کے جرم میں انتظامیہ اور پولیس کے مظالم کا شکارہوئے۔

جماعت اسلامی کا یہ اجلاس ملک کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورت حال پر اپنی فکر مندی کا اظہار کرتا ہے ، عالم اسلام کی صورت حال پر تشویش ظاہر کرتا ہے اور ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی ذمہ داریاں یاد دلاتا ہے ۔

ملک کو معاشی بحران سے بچائیں

ہمارے ملک کے وزیر اعظم نے کسی تیاری کا موقع دیے بغیر 24مارچ 2020 سے اکیس دن کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ۔ اس غیر متوقع اعلان نے 130 ملین لوگوں کو سنگین بحران سے دوچار کردیا ۔اسی طرح عوام کو پریشانی میں مبتلا کرنے والا نوٹ بندی کا اعلان نومبر 2016 میں کیا گیا تھا۔اس لاک ڈاؤن نے کروڑوں لوگوں کو کھانے سے محروم ، بے گھر اور بے روزگار کردیا اور ہزاروں لوگ موت کا نوالہ بن گئے ۔ اسی طرح ملک میں بڑے پیمانے پر لوگ اور خاص طور سے محنت کش طبقہ جنوب سے شمال اور مغرب سے مشرق کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوا۔ یہ سب کچھ واضح طور پر حکومت کی بد انتظامی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے ہوا، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ کووڈ سے متاثر ہوئے، بہت بڑی تعداد بے روزگار ہوئی ، ملک کی جی ڈی پی بہت نیچے آگئی۔اورشرح ترقی منفی ہوجانے کے درپے ہے۔

بحران سے نپٹنے کے لیے مرکزی حکومت ، ریاستی حکومتوں اور ملک کے شہریوں کی طرف سے جو بھی کوششیں ہوئی ہیں وہ قابل قدر ہیں ، تاہم موجودہ صورت حال کی سنگینی تقاضا کرتی ہے کہ حکومت مختلف حربوں سے اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے بجائے پوری توجہ ملک کے حالات کو بہتر بنانے پر مرکوز کرے۔ نعروں کے بجائے وسیع تر قومی مفاہمت کے ساتھ حکمت عملی اختیار کی جائے اور پارٹی لائن سے اوپر اٹھ کر ملک کے تمام طبقات کا اعتماد حاصل کرکے فوری اقدامات کیے جائیں۔ کووڈ کی تباہ کاریوں اور اس کا مقابلہ کرنے میں ملک کے نظام معیشت اور نظام صحت کی بے بسی کے پیچھے ملک میں پھیلا ہوا کرپشن اور غیر عوام دوست معاشی پالیسیوں کا بھی بڑا کردار ہے ۔

وقت کا ناگزیر تقاضا ہے کہ فوری وقتی اقدامات کے ساتھ ساتھ اور ان سے آگے بڑھ کر ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں، ملک کی معاشی پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے، نج کاری کی طرف بڑھتے قدموں کو روکا جائے ، صحت وتعلیم کی تجارت کاری سے باز رہا جائے اور بجٹ کے بڑے حصے کو عوام کے رفاہ اور روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے مختص کیا جائے۔ ملک کی اس سنگین صورت حال سےنپٹنے کے لیے حکومت پر تکیہ کرنا ہرگز کافی نہیں ہوسکتا ہے ، اس کے لیے عوامی بیداری اور احساس ذمہ داری ناگزیر ہے ۔ عوام کو ہر طرح کی تفریق سے بالاتر ہوکر بھائی چارے کے ماحول کو بڑھانا چاہیے اور باہم کفالت کے رجحان کو فروغ دینا چاہیے ، جو لوگ بے روزگار ہیں ، یا کووڈ کی وجہ سے ناقابل برداشت اخراجات کا سامنا کررہے ہیں ، ان کی کفالت کے لیے معاشرے کے تمام افراد بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ، یہ انسانیت کا تقاضا ہے، جو سبھی پر عائد ہوتاہے ۔

ملک کو سیاسی بحران سے باہر نکالیں

اگر ایک طرف ملک معاشی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے تو دوسری طرف وہ سیاسی بحران سے بری طرح دوچار ہوچکا ہے۔ آئینی اداروں کی خود مختاری پر بڑے اور ناقابل نظر انداز سوالیہ نشانات کھڑے ہوگئے ہیں ۔ اظہارِ اختلاف کی آزادی شدید خطرے سے دوچار ہے ، عدلیہ کے اعلیٰ ترین اداروں سے جاری ہونے والے فیصلے پوری دنیا میں تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں ، حزبِ اقتدار ملک کی اقلیتوں کے خلاف مسلسل جارحیت کا مظاہرہ کررہی ہے تو حزب اختلاف کا رول ناقابل ذکر ہوکر رہ گیا ہے ۔ موجودہ حکومت کی اقلیتوں ، دلتوں ، کم زور طبقات اور خاص طور سے مسلم مخالف پالیسیاں اور فیصلے ملک کی جمہوری پہچان کے لیے شدید خطرہ بن چکے ہیں ۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ایک خاص طبقے کا کردار ملک میں یکجہتی کی فضا کو مسموم کرنے والا ہے ، میڈیا اور سوشل میڈیا میں نفرت پھیلانے والی باتیں اور ان پر حکومت کی خاموشی اور بسا اوقات سرپرستی ملک کی اقلیتوں کے اندر بے اعتمادی اور غصہ کا سبب بن رہی ہے ۔ این آر سی ، سی اے اے اور این پی آر کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے والوں کو لاک ڈاؤن کے دوران جس طرح الزامات لگاکر قیدوبند سے دوچار کیا جارہا ہے، وہ نہایت قابل مذمت ہے ۔

حکومت کی اولین ذمہ داری اور آئین سے وفاداری کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ وہ آئین اور آئینی اداروں پر ملک کے تمام طبقات کےاعتماد کی حفاظت کرے ۔ نیز سیاسی بحران کی یہ صورت حال ملک کے تمام لوگوں کے لیے فکر مندی کا باعث ہونی چاہیے۔ عالم اسلام کی تشویش ناک صورت حال عالم اسلام کے مختلف خطوں ، خاص طور سے یمن ، شام ، لبنان اور لیبیا میں برسوں سے جاری خانہ جنگی تشویش ناک ہے ۔ ان خانہ جنگیوں میں لاکھوں جانیں تلف ہوئیں اور نا قابل شمار مالی نقصانات لاحق ہوچکے ہیں ۔ صورت حال کی اس خرابی کے لیے عالمی طاقتیں بھی یقیناً ذمہ دار ہیں ، تاہم اسے سنبھالنے اور درست کرنے کی اولین ذمہ داری امت مسلمہ پر عائد ہوتی ہے ۔ ضروری ہے کہ ان خانہ جنگیوں کے اسباب کی صحیح تشخیص کی جائے اور ان کے سدِّ باب کی عالمی سطح پر مہم چلائی جائے ۔

بعض مسلم ممالک میں سیاسی بالیدگی اور حقوق انسانی کی صورت حال تشویش ناک ہے ، ان ملکوں میں اظہارِ رائے پر پابندی ہے اور اصلاح کی پرامن کوششوں کے جرم میں ہزاروں افراد برسہا برس سے جیلوں میں بند ہیں ۔مسلم ممالک کی یہ صورت حال عالمی سطح پر ان کی تصویر کو خراب کرنے والی ہے اور ان کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔ اسےتبدیل کرنےکے لیے تشدّد سے مکمل پرہیز کرتے ہوئے مسلسل اور طویل پرامن جدوجہد ضروری ہے ۔

فلسطین پر اسرائیلی قبضہ جس طرح اپنی ابتدا میں غلط تھا، اسی طرح اپنے تسلسل میں بھی غلط ہی رہے گا ۔ مسلم امت اور انصاف پسند عالمی برادری نے جو موقف قبضے کے آغاز میں اختیار کیا تھا اس موقف کا اعادہ کرتے رہنا ضروری ہے ، تاکہ وقت کے گزرنے کے ساتھ انصاف کا تقاضا دھندلا نہ ہو ، بلکہ ہمیشہ اپنی واضح صورت میں سب کے سامنے رہے ۔ فلسطین کے سلسلے میں امریکہ کی سرپرستی میں غاصب اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات کا تازہ معاہدہ مسئلۂ فلسطین کے ساتھ کھلی ہوئی خیانت ہے اور نہایت قابل مذمت ہے۔ فلسطین کے سلسلے میں کسی بھی ملک کی حکومت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ فلسطین کے عوام کی مرضی کے علی الرغم کوئی صورت ان کے اوپر مسلط کرنے کی کوشش کرے اور کسی مسلم ملک کی حکومت کے لیے تو یہ نہایت شرم ناک بات ہے کہ وہ ایسی کسی مذموم کوشش کا حصہ بنے ۔

ہمارے ملک ہندوستان نے جس طویل جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی ہے اس کا تقاضا ہے کہ اب تک وہ فلسطین کی آزادی کے لیے فلسطینی عوام کے ساتھ جس مضبوطی سے کھڑارہا ہے ، اپنے اسی موقف پر قائم رہے ۔ ہندوستانی مسلمان حوصلے کے ساتھ اپنا فرض نبھائیں ہندوستانی مسلمانوں کو وطن عزیز میں جن مسائل کا سامنا ہے، ان میں سب سے سنگین مسئلہ بڑھتی ہوئی فسطائیت کا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ طوفان مزید بلاخیز ہوتا چلاجارہا ہے ۔ یقیناً فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی کا یہ ماحول نیا نہیں ہے ۔ ملک میں نفرت اور تعصب کو ہوا دینے اور مسلمانوں کے خلاف فسطائی طاقتوں کے گم راہ کن پروپیگنڈے کی ایک پوری تاریخ موجود ہے ۔البتہ حالیہ برسوں میں جب سے فرقہ پرستی اور فسطائیت کے اس رجحان کو سرکاری چشم پوشی حاصل ہوئی ، صورتِ حال خاصی سنگین ہوگئی ہے ۔ نفرت اور فسطائیت کے اس انتہائی خطرناک اورموذی وائرس سے چھٹکارا پانے اور برادرانِ وطن کے ذہنوں میں مسلمانوں سے متعلق پیدا کی گئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا ایک مؤثر طریقہ خدمتِ خلق اور فلاحِ انسانیت کی سرگرمیاں اور اسلامی اخلاقیات کے عملی دعوتی مظاہر ہیں، جس کی روشن مثال ملک کے مسلمانوں نے کووڈ کے دوران پیش کی ہے۔

پورے ملک میں مسلمانوں نے لاک ڈاؤن کے دوران مصیبت کی اس گھڑی میں بلا تفریق مذہب وملت اپنے ضرورت مند اور مصیبت زدہ بھائیوں کی مثالی اور والہانہ انداز میں مدد کی ۔ مسلم تنظیمیں اور مسلم این جی اوز بھی خدمتِ خلق کے معاملے میں پیش پیش رہیں ۔ اس دوران جماعت اسلامی نے بھی ملک بھر میں مہماتی انداز سے ریلیف کا کام کیا اور ملک و ملت کی رہ نمائی کے لیے بروقت اپیلیں جاری کیں ۔ مسلم امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ خدمت و دعوت کی راہ پر صبر وتحمل اور عزم واستقامت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ۔ تعلیمی اور معاشی لحاظ سے مسلمانوں کی صورت حال بہت توجہ طلب اور منظم جدجہد کی متقاضی ہے ۔

ملت اسلامیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک نئی فکرو سوچ کے ساتھ تعلیمی اور معاشی ترقی کی منصوبہ بندی کرے ۔ ملک کی نئی تعلیمی پالیسی کی کم زوریوں پر تنقید کے ساتھ اس میں موجود امکانات کو اپنی تعلیمی ترقی کے لیے استعمال کرے ۔ اسی طرح ملک کے قوانین اور ضوابط سے عدم واقفیت اور ایک حد تک لاپروائی آنے والے وقتوں میں دشواریوں میں اضافہ کرسکتی ہے ۔ مسلمانوں کی این جی اوز ، تنظیموں اور اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام کام ملک کے قانون کے مطابق تمام ضروری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے انجام دیں ۔ وہیں مسلمانوں کو اپنی تمام قانونی دستاویزات کی تکمیل کے لیے سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے ۔ یہ حقیقت نگاہوں کے سامنے رہنی چاہیے کہ درپیش چیلنجوں اور پریشان کن حالات سے نپٹنے کے لیے تمام ضروری تدبیریں اختیار کرتے ہوئے ، نصب العین سے گہرا تعلق بہرحال ضروری ہے ، مسلمانوں کی حقیقی کام یابی کا انحصار ان کی اپنے نصب العین سے وابستگی پر ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!