آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی ختم ہوتی آزادی
ساجد محمود شیخ، میراروڈ ممبئی
۱۵ اگست کو یومِ آزادی منایا جاتا ہے۔ اس دن ہم کو انگریزوں کی غلامی سے نجات ملی تھی اور ہم ایک بار پھر آزاد ہوگئے تھے۔اس آزادی کے حصول کے لئے ملک کے سبھی باشندوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور مسلمانوں نے بھی برادرانِ وطن کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے تھے اور غیر معمولی قربانیاں پیش کیں۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے اور منصفانہ طریقے سے اس کا تجزیہ ہو تو یہ بات واضح ہو جائے گی مسلمانوں نے وطنی بھائیوں کے مقابلے میں زیادہ قربانیاں دیں تھیں۔ آزادی کی تحریک مسلمانوں کے ذکر کے بغیر ادھوریطو مگر افسوس آزادی کے فوراً حالات یکسر تبدیل ہو گئے۔ آزادی کے ثمرات سے مسلمان محروم کردئیے گئے۔ پاکستان کے نام پر ایک چھوٹا سا حصہ مسلمانوں کو تھما دیا گیا اور تقسیم وطن کا سارا الزام مسلمانوں کے سر پر ڈال دیا گیا۔
اگرچیکہ مسلمانوں کی بڑی تعداد نے پاکستان کے بجائے ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دی تھی مگر تقسیم وطن کے نام پر ان کو احساسِ جرم میں مبتلا کردیا گیا۔ دھیرے دھیرے مسلمانوں کو قومی دھارے سے دور کیا جانے لگا ۔ مسلمان اپنے ہی وطن میں اجنبی بننے لگے۔ ہر شعبۂ زندگی میں انھیں حاشیہ پر دھکیلا جانے لگا۔ مسلمانوں کو کہا گیا کہ اب وطن کو تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ اگرچیکہ یہ سرکاری طور پر نہیں ہوا بلکہ چند فرقہ پرستوں کی زبانی بولا جانے لگا۔ اس کے علاوہ حکومتوں کا طرز عمل بھی اس بات کی تصدیق کرتا رہا اور مسلمانوں کو محسوس ہوتا رہا کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی ۔مسلمانوں کے احساسات کی ترجمانی یہ شعر سے ہوتی ہے
جب پڑا وقت گلستاں پہ تو خون ہم نے دیا
جب بہار آئی تو کہتے ہیں جاؤ تمہارا کام نہیں
بات صرف مسلمانوں کی جروجہدِ آزادی کے حوالے سے خدمات کو فراموش کرنے کی نہیں ہے بلکہ دھیرے دھیرے ہمیں معاشی سماجی اور سیاسی طور کمزور کیا جانے لگا۔ ملک کے کونے کونے میں برپا ہونے والے ہزاروں فسادات نے جانی نقصان کے ساتھ معاشی طور مسلمانوں کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا۔ سرکاری نوکریوں سے مسلمانوں کا صفایا کیا گیا۔ سیاسی جماعتوں نے اگرچیکہ مسلم نمائندگی کو بظاھر جگہ دی مگر یہ نام نہاد مسلم سیاست داں اپنے مفاد کی خاطر ملّت کا ساتھ دینے کے بجائے اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف رہے۔
مسلمانوں کو کمزور کرکے حاشیہ پر دھکیلنے کا کام سبھی نام نہاد قومی و علاقائی سیاسی جماعتوں نے کیا ۔ ان جماعتوں کے امیدوار مسلمانوں کے ووٹ سے منتخب ہوتے رہے اور ہمیں کمزور کرتے رہے ۔ مگر اب جو جماعت مرکز میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے وہ اعلانیہ طور پر مسلمانوں کی مخالف ہے اور اس جماعت نے مسلم دشمنی کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی ہے اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد مسلسل مسلمانوں کا نام ونشان مٹانے کی کوشش مں مصروف ہے۔ نوٹ بندی کا زیادہ نقصان مسلمانوں کو پہنچا۔ چھوٹے چھوٹے مسلم کاروباری لوگوں کا کاروبار ٹھپ پڑ گیا۔ گئو کشی قانون کے تحت بیلوں کے ذبیحہ پر پابندی لگا دی گئی جس کی وجہ سے ہزاروں مسلمان جو اس پیشے سے وابستہ تھے وہ بیروزگار ہوگئے۔ مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ کے نام پر طلاق ثلاثہ بل منظور ہوا جو کہ نہ صرف مسلمانوں کی مذہب میں مداخلت تھی بلکہ اس قانون کے ذریعے مسلم خواتین کے گھر تباہ کرنے اور مسلمان مردوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے۔ بابری مسجد کے بعد دیگر مساجد پر قبضہ کی بات چل رہی ہے۔ ہجومی تشدّد کے ذریعے مسلمانوں کو جانی نقصان پہنچانے اور ان کے اندر عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اردو زبان کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ کے مطابق اردو زبان کی بطورِ مادری زبان ختم کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔
مودی حکومت نے گزشتہ سال شہرت ترمیمی قانون منظور کیا جس کے مطابق مسلمانوں کو چھوڑ کر باقی مذاہب کے ماننے والوں کو ہندوستان میں سکونت اختیار کرنے اور شہریت حاصل کرنے کا حق دیا گیا ہے مگر مسلمانوں کو اس سے محروم رکھا گیا۔ اس قانون کی منظوری سے مسلمانوں کے سر پر تلوار لٹکنے لگی ہے اور انھیں گھر سے بے گھر ہونے کا خطرہ لاحق ہونے لگا ہے ۔ مسلمانوں کے خدشات بلاوجہ کے نہیں ہیں کیونکہ حکومت ملک کے تمام باشندگان وطن کے لئے قومی سطح پر شہریت رجسٹر بنانے کا کام کر رہی ہے جس کو این آر سی کہتے ہیں ۔ این آر سی میں کروڑوں لوگ دستاویزات کی کمی کے باعث جگہ نہیں بنا پائیں گے تو شہریت ترمیمی قانون کی رو سے انھیں این آر سی میں ضم کیا جائے گا مگر چونکہ مسلمانوں کا ذکر اس قانون میں نہیں ہے اس لئے اندیشہ ہے کہ کروڑوں مسلمان ہندوستان کی شہریت سے محروم ہو جائیں گے۔ یہ قانون مسلمانوں کے شہری حقوق سلب کرنے اور ان کو بنیادی حقوق سے محروم کرکے غلام بنانے کی تیاری ہے۔ اب آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی آزادی ختم ہو نے لگی ہے.
اب بھی وقت ہے کہ ملّتِ اسلامیہ ہندوستان بیدار ہو اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے جدو جہد شروع کرے ۔ اب مسلمانوں کو جنگِ آزادی کی طرز پر دوبارہ آزادی کی دوسری لڑائی شروع کرنا پڑے گا۔ اگر مسلمان چاہتے ہیں کہ اُن کی آنے والی نسلیں غلامی کی زندگی نہیں جیئں اور ان کو سر اٹھاکر جینے کا حق حاصل رہے تو آج ہم کو کوشش کرنی پڑےگی آپس میں متحد ہونا پڑےگا اور میدان عمل میں آ کر قربانیاں پیش کرنی ہوگی ۔ملّت کو سماجی سیاسی ومعاشی طور ترقی دینے کےلئے جدوجہد کرنی ہوگی اور اسی صورت مسلمان اس ملک میں ایک آزاد و زندہ قوم کے طور پر باقی رہیں گے- بصورتِ دیگر ہمارا حال بھی اسپین،بوسنیا اور برما کے مسلمانو سے مختلف نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کے موجودہ حالات پر یہ شعر صادق آتا ہے۔
فقط احساسِ آزادی سے آزادی عبارت ہے
وہی دیوار زنداں کی وہی دیوار گھر کی ہے