حالاتِ حاضرہمذہبیمضامین

رسول ﷺ کی شان میں گستاخی اور ملّت کے نوجوان

جوش کے ساتھ ہوش کی ضرورت

لئیق اللہ خاں منصوری، بنگلور

اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شرپسندوں کی اشتعال انگیزی نئی نہیں ہے۔ گزشتہ شب فیس بک پر حضورصلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی کی ایک نوجوان نے جسارت کی جس کے نتیجے میں بنگلور شہر کے ڈی جے ہلی علاقہ میں کشیدگی پیدا ہوئی۔عموماً اس طرح کے واقعات میں ملت کے نوجوانوں کی طرف سے جذباتی احتجاج ہوتا ہے، لیکن انتظامیہ کی جانب سے مسلمانوں کے حق میں کوئی مثبت کارروائی دیکھنے میں کم آتی ہے۔بڑی تعداد میں گرفتار مسلمان کیے جاتے ہیں۔خاطیوں کی برائے نام گرفتاری کی جاتی ہے پھر بغیر محسوس کرائے خاطیوں کی رہائی بھی ہوجاتی ہے۔متعصب میڈیا ایسے موقعوں کا بھرپور فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔نفرت کا ماحول گرم کیا جاتا ہے۔

نتیجتاً کشیدگی کے ابتدائی سبب کو لوگ فراموش کردیتے ہیں اور احتجاج اور اس سے ہونے والے نقصانات کو نشانہ بنادیا جاتا ہے۔شرپسند عناصر وقتاً فوقتاً اس طرح کے اشوز اٹھاتے رہتے ہیں تاکہ ماحول کشیدہ رہے اور ملک کی سا لمیت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کیا جاتا رہے جس سے مسلم دشمنی عام ہو اور نفرت کی سیاست کی جاسکے۔ملت کے اداروں اور تنظیموں کے ذمہ داروں کواس مستقل مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور امت کے نوجوانوں کی صحیح رخ پر رہنمائی کرنے کا انتظام بھی کرنا چاہیے تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

بلاشبہ کوئی مسلمان حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی کو گوارہ نہیں کرسکتا۔اور نہ ہی مساجد اور قرآن مجید کی بے حرمتی کو برداشت کرسکتا ہے۔لیکن احتجاج اور رد عمل کا جو طریقہ عموماً اختیار کیا جاتا ہے اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔انبیاء علیہم السلام کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر زمانے میں ابلیس کے نمائندے فتنہ و فساد پھیلانے اور حق کے علمبرداروں کی مخالفت کرنے اور ان کا استہزا و تمسخر کرنے میں مصروف رہے ہیں۔نفرت، تعصب اور تخریب کاری ہی ان کا ایجنڈا ہوتا ہے۔قرآن مجید کااس پہلو سے اگر مطالعہ کیا جائے تو ہمیں انبیائی اسوہ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ کیسے حضرات انبیاء علیہم السلام نے مخالفت کا سامنا کیا اور اپنے حسن اخلاق اور حکمت سے کیسے دمشن عناصر کو شکست دی اور بالآخراپنے مشن میں کامیاب ہوئے۔اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں بھی استہزا و تمسخر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دی گئیں، طنز کیا گیا، ذہنی اور جسمانی اذیتیں دی گئیں۔

لیکن اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دیتا رہا کہ آپؐ ان کی باتوں سے رنجیدہ نہ ہوں۔اللہ تعالیٰ نے سورہئ حم السجدہ (آیت نمبر۴۳) میں یہ رہنمائی نازل کی کہ ”اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔“یہی اصول حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں ہمیں ملتا ہے۔طائف کی وادی میں جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لہولہان کیا گیااورجب طائف کی بستی کو دو پہاڑوں کے بیچ میں پیس کر رکھ دینے کی اجازت چاہی گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمادیا اور مستقبل کے سلسلہ میں امید کا اظہار کیا کہ یہ نہ صحیح ان کی نسلیں مسلمان ہوں گی، ان شاء اللہ۔مکی زندگی میں جن لوگوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت کی تھی ان میں سے کئی لوگ بعد کے مراحل میں حلقہ بہ گوش اسلام ہوگئے۔فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کٹر دشمنوں کو تک معاف کردیا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حسن اخلاق سے مسلمان (جو مکہ میں تھوڑے تھے) اقلیت سے اکثریت میں تبدیل ہوگئے۔

یقینا اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے مدینے کی ایک اسلامی ریاست وجود میں آئی اور غلبہئ اسلام کے لیے جنگوں کا سلسلہ بھی چلالیکن انسانی تاریخ کا یہ بھی ایک روشن باب ہے کہ جنگوں کے اس سلسلہ میں بھی حد سے تجاوز نہیں کیا گیااور کم سے کم جانیں تلف ہوئیں اور بالآخر اسلام غالب ہو کر رہا۔ ہم اسی رسولؐ کے امتی ہیں۔ ہمارے لیے اسوہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی زندگی میں پنہاں ہے۔گالی کا جواب گالی سے نہیں بلکہ اس کا جواب دعا سے دینا اسوہئ رسول ہے۔اینٹ کا جواب پتھر سے دنیا اسلامی مزاج نہیں ہے۔تخریب کا جواب تخریب نہیں ہے بلکہ تخریب کاروں کی اصلاح ہی اس کا جواب ہے۔حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک موقع پر یہ بات سمجھائی کہ اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔صحابہ ؓ نے تعجب سے سوال کیا کہ مظلوم کی مدد سمجھ میں آتی ہے لیکن ظالم کی مدد کیسے کی جائے گی؟ اللہ کے نبی ؐنے سمجھایا کہ ظالم کو ظلم سے روکنا ہی اس کی مدد کرنا ہے۔ (بخاری)۔

اس اصول کے تحت ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ جو لوگ نفرت پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں ان کو اس عمل سے کیسے روکا جائے۔اس کا ذریعہ عملی دعوت ہے۔ ہمیں اس ملک کی اکثریت کو اللہ کے دین سے واقف کرانے کی کوششوں کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔غلط فہمی کا جواب تشدد نہیں ہے بلکہ اس غلط فہمی کو دور کرنا ہے۔جولوگ اسلام کے مختلف پہلوؤں پر اعتراضات کرتے ہیں ان کے اعتراضات کا معقول و مدلل جواب دیا جائے۔ قرآن مجید ایک اور اصول یہ بھی دیتا ہے کہ نہ ظلم کیا جائے اور نہ ظلم سہا جائے۔ (ملاحظہ ہو سورہٌ بقرہ:۹۷۲)۔

اس اصول کے تحت تخریب کاری کو روکنے کے لیے ایک اہم کام قانونی چارہ جوئی بھی ہے۔ہمیں احتجاج ضرور کرنا چاہیے لیکن قانون کے دائرہ میں رہ کر۔ ہماری صفوں میں ایسے وکلاء ہوں جو اس قسم کی حرکتوں پر بروقت نوٹس لیں اور قانونی کارروائی کریں۔ایسے صحافی ہوں جو واقعات کا صحیح تناظر لوگوں کے روبرو پیش کریں۔

ملت کے نوجوانوں کو اس بات کی تربیت دی جائے کہ قانون کو کسی بھی صورت میں اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کریں۔مخالف عناصر لاکھ قانون کی دھجیاں اڑائیں، ظلم اور بربریت سے کام لیں، لیکن ان کا یہ عمل ہمارے لیے جواز فراہم نہیں کرتا کہ ہم بھی انہیں کے نقش قدم کو اختیار کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ہمارے حسن اخلاق سے اسلام اور مسلمانوں کا نام روشن ہوگا اور ہماری غلط حرکتوں سے اسلام کی شبیہ خراب ہوگی۔دشمن عناصر یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان مشتعل ہوں اور ایسی غلط حرکتیں کر بیٹھیں جن کو بنیا دبنا کر ایک طرف اسلام کو بدنام کیا جائے اور دوسری جانب مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کے لیے بہانہ فراہم کرلیا جائے۔ملت کے نوجوانوں کو اپنے اکابر پر اعتماد بھی کرنا چاہیے اور یہ عزم بھی کہ ہم ان کی رہنمائی میں مناسب اقدام کریں گے۔غیر منصوبہ بند احتجاج سے نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ بلاشبہ اسلام کے حق میں مسلم نوجوانوں کا جوش و جذبہ مطلوب بھی ہے اور محمود بھی، لیکن یہی جوش اگرہوش سے خالی ہو جائے تو غیر مطلوب جوش بن جاتا ہے۔

قرآن مجید نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ کو پیش کیا ہے۔ آپؑ کی زندگی کا ایک واقعہ ان کی جوانی کے دور کا ہے جس میں بتوں کو توڑنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس واقعہ کی خاص بات ابراہیم علیہ السلام کی وہ ہوش مندی تھی جس کے ذریعہ آپ نے بڑے بت کو جان بوجھ کر نہیں توڑا تاکہ قوم کو ان بتوں کی بے وقعتی سمجھاسکیں۔حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلوان اس شخص کو نہیں قرار دیا جو کُشتی میں مقابل کو پچھاڑدے بلکہ بہادر اور طاقتور اسے قرار دیا جو غصہ کی حالت میں خود کو قابو میں رکھے۔ (بخاری)۔

یہی ہوش اور جوش کا امتزاج مسلم نوجوانوں سے بھی مطلوب ہے۔ہمیں ایسے ہوش با جوش اور جوش با ہوش نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اس ملک میں محنت اور حکمت کے ساتھ اسلام کی نمائندگی کرسکیں۔جس دن ملت کے نوجوانوں میں یہ جوش پیدا ہوجائے گا کہ ہم اس ملک کے مقدر کو سنواریں گے اور اسے اسلام کا گہوارا بنائیں گے، وہ دن امت کے عروج کا پہلا دن ہوگا۔ملت کا نوجوان طبقہ اگر امت کو تعلیمی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے اوپر اٹھانے کا بیڑا اٹھائے اور اس کے لیے اپنے جوش و جذبہ کا استعمال کرے تو امت کا مستقبل روشن ہوسکتا ہے۔اگر ہمارے نوجوان اسلام کے سچے نمائندے بن کر ملک کی اکثریت کے روبرو اپنے قول اور عمل سے اسلام کی دعوت پیش کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں تو اس ملک کی اکثریت اسلام کے حیات بخش نظام کو گلے لگانے کے لیے تیار ہوسکتی ہے۔

سابق امیر جماعت اسلامی ہند مرحوم مولانا سید سراج الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے تھے کہ ”مسلمان اسلام کے لیے سر کٹانے کے لیے تیار ہیں، لیکن سر جھکانے کے لیے نہیں“۔ کیا ہی اچھا ہوگا اگر ملت قرآن و حدیث کو تھام کر اقامت دین کے اعلیٰ نصب العین کے لیے سرگرم عمل ہوجائے۔ یہی مشن ہمارے سارے مسائل کا حل ہے۔ ہم نے اسلام کو ایک مشن کے طور پر نہیں سمجھاہے جیسا کہ انبیاء اور صحابہ نے سمجھا تھا۔اسلام صرف ارکان اربعہ اور پرسنل لا کا نام نہیں ہے۔بلکہ پوری زندگی پر محیط ہے۔اسلام ساری انسانیت کی فلاح و بہود کے لیے اللہ کا دیا ہوا دین ہے جس کی امانت امت مسلمہ کے پاس ہے۔ اس امانت کو اس کے حقداروں تک پہنچانے کے لیے امت کے نوجوانوں کو اٹھ کھڑے ہونا ہے۔جس ملک میں ہمیں یہ کام کرنا ہے وہ ایک جمہوری ملک ہے۔یہاں دستور کو بالا دستی حاصل ہے۔عدلیہ کا نظام بھی مضبوط ہے۔انتخابات کا سلسلہ بھی قائم ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اس بنیادی ڈھانچے کو مسمار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔پورے نظام کو معطل کرنے کی منصوبہ بند سازشیں محسوس ہوتی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان اٹھیں اور ملک کی ان بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے اپنی صلاحیتیں لگائیں تاکہ یہاں مذہبی آزادی قائم رہ سکے۔ مذہب پر عمل کرنے اور اس کی ترویج و اشاعت کی آزادی باقی رہے۔دستور کے تحفظات سب کو حاصل رہیں۔عدلیہ کا وقار بحال ہو۔فسطائی ذہنیت ملک کی سا لمیت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ اس کے سد باب کے لیے نوجوانوں کو مجاہدہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ملت کے نوجوانوں کے جوش و جذبے کو اسلام کی اشاعت و اقامت کے لیے ہموار فرمائے تاکہ ایک خوش حال ریاست کا خواب شرمندہئ تعبیر ہوسکے۔آمین!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!