حالاتِ حاضرہمضامین

کیا مسلمان اپنی شناخت کی لڑائی، منصوبہ بند طریقے سے لڑرہا ہے!

محمد یوسف رحیم بیدری

مسلمان پوری دنیا کی طرح محبت کی سرزمین ہندوستان میں بھی رہتااور بستاہے۔ یہاں کروڑوں تصوراتی خداؤں کو ماننے اور کسی بھی خدا کو نہ ماننے والے ملحد بھی رہتے ہیں۔ وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے انسانوں کوخدا کادرجہ دے رکھاہے۔اور وہ لوگ بھی ہیں جن کے پاس خدا تین ہے یاتین میں سے ایک ہے۔ مسلمانوں کے پاس ایک خدا، رسالت اور آخرت کا تصور ہے۔ اسی کے سہارے بھارت کامسلمان زندگی گذارتاہے۔ رسالت کا حقیقی تصوراور نظریہ آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ کر ختم ہوجاتاہے کیونکہ وہ خاتم النبیین ہیں۔ اب کوئی نبی یارسول اس دنیا میں بھیجانہیں جائے گا۔


توحید، رسالت اور آخرت اسلام کی تین بنیادیں ہیں۔ ان تین بنیادوں کی تعلیمات کواپنے اندر، اپنے گھر کے اندر، معاشرے میں اور پورے ملک میں نافذ کرنا ہرمسلمان مردو عورت کی منصبی ذمہ داری ہے۔اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں جتنی پھرتی، جتنی سنجیدگی اورمتانت دکھائی جائے گی اتنے مثبت اثرات فرد، معاشرہ اور بھارت پر پڑیں گے۔ جتنی کوتاہی ہوگی اتنا انتشار بڑھے گا۔ اور مسلم مخالف لوگ انتشار کے طالب ہیں۔ ہندوستان میں ایک اللہ کو ماننا صدیوں سے رہاہے۔ کسی شخص کو اوتار سمجھ لینا یا اس کو پیغمبر کہنا یہ تصوربھی آج تک جاری وساری ہے۔ اختلاف مرنے کے بعد کی زندگی پر ہے۔

بہت سے لوگ پنر جنم کی بات کرتے ہیں۔ تاہم دونوں باتیں ایک خداور اوتار یاپیغمبر، ولی وغیرہ کو ماننے میں سب لوگوں سے مسلمانوں کااشتراک ہے۔ لیکن اچانک ہی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پرکہیں نہ کہیں فساد پھوٹ پڑتاہے۔ گستاخ رسول کے نام پرکچھ چہرے سامنے کردئے جاتے ہیں۔ پولیس فائرنگ،اموات اورزخمیوں کی تعداد، گرفتاریاں، عدالتی کارروائی وغیرہ کا چکر اٹھ کھڑا ہوتاہے۔یہ سب آیا منصوبہ بند ہوتاہے یانہیں؟

99%جواب بعدتحقیق کے یہ ملتے ہیں کہ تمام فساد منصوبہ بند ہوتے ہیں۔ اللہ کے رسول کی شان میں گستاخی سے متعلق فساد بھی منصوبہ بند ہوتاہے تو پھر مسلمانوں کا اس معاملے میں سختی دکھاکر میڈیا میں بدنام ہوجانا درست رہے گایا ایسے منصوبہ بند فسادات کامقابلہ اور اس کاحل سنجیدگی، متانت، معاشرے کے دیگر طبقات کے رہنماؤں اور حکومت سے گفت وشنید کے ذریعہ ہونا چاہیے؟ آج کچھ مسلمان کہہ رہے ہیں کہ فسادات سے صرف مسلمانوں کانقصان ہوتاہے، اس کی پبلسٹی بڑے زور وشور سے کی جارہی جبکہ نقصان کی کہانی اتنی ہی نہیں ہے۔ نقصان ہمہ گیر ہوتاہے۔ سبھی کا ہوتاہے۔مخالف طبقہ ہی نہیں ضلع انتظامیہ اور پولیس کی راتوں کی نیند حرام ہوجاتی ہے۔ جہاں فساد ہوتاہے اس محلہ اور شہر کی ترقی رک جاتی ہے۔ اور سارے ملک کے نوجوانوں کے دماغ میں فساد کاوائرس گھرکرلیتاہے،وہ بھی اپنے گاؤں اور شہر میں اس عمل کودوہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا ایک چراغ کے بعد دوسرا فسادی چراغ جل اٹھتاہے۔ یعنی بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی والی کیفیت سامنے آتی ہے

اللہ تعالیٰ نے زمین پر فساد برپا کرنے کو منع کیاہے۔ اول شخص نے اگر غلط کیاہے تو دوسرے کو ہوشمندانہ قدم اٹھانا چاہیے۔ جہاں ایسا نہیں ہوگا وہاں بات دور دورتک جائے گی اور جولوگ ملک میں امن نہیں دیکھنا چاہتے ان کوموقع ملے گا۔ جو بھی ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پرمر مٹنے والے ہیں انہیں پہلے اس کے مبلغ بننے چاہیے۔ پھرجب کبھی مشکل گھڑی پیدا ہو، ایک پورا طبقہ اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتو کوئی علیحدہ بات سوچی جاسکتی ہے۔ورنہ پرامن رہنے میں اپنی، برادران وطن کی، وطن عزیز بھارت کی اور ساری انسانیت کی بھلائی ہے۔ آپ یقین کریں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کے لئے اٹھنے والاہر قدم اور ہر آواز منصوبہ بند ہوتی ہے لیکن آپ اس آواز کو دبانے کے لئے منصوبہ بند کیوں نہیں ہوتے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوچاہنے والے صرف مسلمان نہیں ہیں۔ ہندوستان کے مختلف طبقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ان کی سیرت کا گہر انقش ہے۔ وہ لوگ بھی آپ کے ساتھ اس کام کے لئے آگے آسکتے ہیں۔ صرف مسلمان اگر گولی اور بندوق کے مقابلے کے لئےاپنا فولادی سینا،لکڑی اور اسٹیک ساتھ لے کر آئے گاتویہ ناموس رسالت پر کس حد تک مرمٹنا ہوا؟کیا قانونی لڑائی کوترجیح نہیں دی جاسکتی۔سوشیل میڈیا پر صرف ایک ہی پوسٹ ہے؟ہر دن، ہر آن سوشیل میڈیا پر گستاخی کرنے والے اللہ، اللہ کی کتاب قرآن مجید اور رسولوں کی شان میں گستاخی کررہے ہیں۔

اسلئے نوجوان جوش سے نہیں ہوش سے کام لیں کیونکہ یہ ان کے شناخت کی لڑائی ہے۔ ہوش کامطلب گھر بیٹھنا نہیں بلکہ گستاخ ِ رسول، گستاخانِ اولیاء اورگستاخان بزرگانِ دین کو قانون کے ہاتھوں کیفر کردار تک پہنچاناہے۔ کیا اس کے لئے منصوبہ بند تیاری ہوسکتی ہے؟ تمام طبقات سے مل کر ایک مضبوط جوابی محاذ بنایاجاسکتاہے۔ اس کاجواب مثبت ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس کی سخت ضرورت ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!