آیا صوفیہ مسجد، تو چرچ کیوں نہ بنی؟
خان یاسر
جسٹینین اول کے حکم پر 532 سے 537 سن عیسوی تک آیا صوفیہ کی تعمیر ہوئی۔ یہ عمارت، تب سے لے کر اب تک، بازنطینی طرز تعمیر کا ایک اعلیٰ شاہکار ہے جسے فن تعمیرات کی تاریخ میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اپنی اولین شکل میں اس عمارت کو یونانی آرتھوڈوکس کیتھیڈرل کے طور پر بنایا گیا۔ بعد ازاں اپنی طویل تاریخ میں یہ پر شکوہ عمارت عروج و زوال کی کئی داستانوں کی گواہ بنی۔ آئیے کچھ پہلوؤں پر ہم بھی غور کرتے چلیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ عیسائی دنیا مبہم و متضاد تعلیمات پر مبنی کئی فرقوں میں منقسم ہے۔ خصوصیت سے یونانی آرتھوڈوکس اور رومن کیتھولک عیسائیوں کے درمیان بنیادی اختلافات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اول الذکر پوپ کی معصومیت کا قائل نہیں۔
موخر الذکر مریم علیہا السلام کو ازلی گنہگار تسلیم نہیں کرتا۔ ایک کے نزدیک پادریوں کی شادی ہوچکی ہو تو جائز ہے، دوسرے کے ہاں کسی حال میں جائز نہیں۔ دونوں کے درمیان عالم برزخ کے وجود و عدم وجود اور محطات الصليب (stations of the cross) کے عقیدے کے اقرار و انکار پر عداوتیں رہی ہیں۔ اول الذکر کے نزدیک مذہب کی اساسی تعلیمات و عقائد میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں تو موخر الذکر عقائد میں ارتقا کے قائل ہیں۔ یہ ایسے بنیادی اختلافات ہیں جن سے یہ دو مسلک نہیں بلکہ دو مختلف دین نظر آتے ہیں۔ صرف باہر سے نہیں بلکہ ان کا آپسی رویہ بھی تاریخی طور پر ایسا نہیں رہا ہے جس سے ان کے باہمی اختلافات پر محض فرقہ وارانہ اور مسلکی ہونے کی تہمت لگائی جاسکے۔ ان کے اختلافات نے وقتاً فوقتاً کبر و نخوت اور تفسیق و تکفیر کی ہی نہیں بلکہ سیاسی محاذ آرائی اور جنگ و جدال کی شکل اختیار کی ہے۔ چنانچہ صلیبی جنگوں کے دوران 1204 عیسوی میں کیتھولک صلیبیوں نے آرتھوڈوکس بازنطینیوں پر حملہ بول دیا اور قسطنطنیہ پر قبضہ جمالیا۔ یہ ایک ہی مذہب کو ماننے والوں کے درمیان کا ایک اتفاقی سیاسی جھگڑا نہ تھا ورنہ اتنی رواداری تو برتی جاسکتی تھی کہ آیا صوفیہ کے مذہبی تشخص کو بحال رکھا جاتا، لیکن ایسا نہیں ہوا،
اس کے برعکس چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا جب صلیبی قسطنطنیہ کے شہریوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے، ان کے اموال و املاک پر قابض ہورہے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے آیا صوفیہ کی سابقہ حیثیت کو ختم کرکے اسے رومن کیتھولک کیتھیڈرل بنا ڈالا۔ جب بازنطینی سلطنت کو 1261 عیسوی میں دوبارہ اقتدار حاصل ہوا اس وقت آیا صوفیہ کی شناخت میں پھر انقلاب آیا اور وہ آرتھوڈوکس کیتھیڈرل کی حیثیت میں لوٹ گیا۔ آرتھوڈوکس اور کیتھولک عیسائیوں کے درمیان یہ عداوت و مخاصمت ایسی شدید تھی کہ آرتھوڈوکس، مسلمانوں کو کیتھولک عیسائیوں سے بہتر سمجھتے تھے۔ یہ کوئی ڈھکا چھپا اقرار نہ تھا بلکہ ان کے بڑے بڑے مذہبی رہنما باقاعدہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے اور ان کے قول تاریخ کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں۔ قسطنطنیہ پر 1204 کی صلیبی فتح اور 1453 کی عثمانی فتح کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آرتھوڈوکس عیسائیوں کی کیتھولک صلیبیوں سے بدظنی مسلکی تعصب پر نہیں بلکہ عقلی و تجرباتی بنیادوں پر قائم تھی۔
آج ترکی کی آبادی تقریباً 8.2 کروڑ ہے۔ اس میں صرف 0.2 فیصد عیسائی ہیں۔ یہ تعداد زیادہ سے زیادہ دو سے تین لاکھ بنتی ہے۔ ان میں کم و بیش اسی ہزار اورینٹل آرتھوڈوکس، پینتیس ہزار کیتھولک، اٹھارہ ہزار انطاکی، پانچ ہزار یونانی آرتھوڈوکس، اور آٹھ ہزار پروٹسٹنٹ وغیرھم شامل ہیں۔ باقی سوالوں کو فی الحال نہ چھیڑتے ہوئے اگر یہ فرض کرلیں کہ مفروضہ انصاف کا تقاضا مسجد آیا صوفیہ کو چرچ بنادینا ہی ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ یہ کام کیسے کیا جائے؟ کیا اسے یونانی آرتھوڈوکس عیسائیوں کے سپرد کیا جائے کہ یہ انہی کے فرقے کا کیتھڈرل رہا ہے؟ مگر ان کی تعداد تو بڑی کم ہے، تاریخ کے اس طویل سفر کے بعد اس اقلیت کو ترکی کی موجودہ عیسائی اقلیت کا نمائندہ نہیں سمجھا جاسکتا۔ تو کیا اسے اورینٹل آرتھوڈوکس کو دیا جائے کہ ان کی تعداد ترکی میں زیادہ ہے؟
مگر آیا صوفیہ ایک ورلڈ ہیریٹیج ہے، اورینٹل آرتھوڈوکس دنیا بھر کے عیسائیوں کی نمائندگی نہیں کرسکتے۔تو کیا اسے رومن کیتھولک فرقے کو دیا جائے کہ ان کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے؟ مگر انصاف کی آڑ میں یہ تو بدترین ظلم ہوگا کہ یہ تاریخی عمارت انہیں بھینٹ میں دے دی جائے جو نہ صرف اس معبد بلکہ اس شہر اور اپنے ہم مذہب شہریوں کی اینٹ سے اینٹ بجا چکے۔ تو کیا یہ پروٹسٹنٹس کو دے دی جائے کہ وہ نسبتاً نئے اور تاریخی طور پر کم متنازع ہیں؟ یا اسے ورلڈ کونسل آف چرچس یا اسی طرح کے کسی ادارے کے حوالے کردیا جائے؟ یہ سوالات بڑے ٹیڑھے ہیں۔ اگر آپ کے زرخیز ذہن میں جب اسے چرچ بنانے کا خیال آہی گیا ہے تو قرین قیاس ہے کہ اس مسئلے کا بھی ایک مناسب حل، یا زیادہ بہتر الفاظ میں، کوئی حل جو آپ کو مناسب لگے سوجھ ہی جائے لیکن کیا اس مسئلے پر اتفاق رائے تک پہنچنا، آسان چھوڑیے، ممکن بھی ہے؟ اس پورے قضیے میں قابل ذکر سوال یہ ہے کہ کیا کسی عیسائی فرقے نے آیا صوفیہ کے لیے اپنا دعویٰ بھی پیش کیا ہے؟ اس کے لیے قانونی جنگ لڑی ہے؟
دلائل و شواہد مہیا کرائے ہیں؟ 1453 سے نہ سہی، 1931 اور 1935 سے کوئی جدوجہد کی ہے؟ تحریک چلائی ہے؟ غلط ہی سہی کم از کم دعویٰ تو کرتے۔ چلیے سلطان محمد فاتح ظالم تھے، عیسائی ان سے ڈر گئے۔ چلیے اردوغان بھی ظالم ہیں، ترکی کے عیسائی بھی ان سے ڈر گئے۔ لیکن پوپ سمیت دنیا بھر کے عیسائی کس سے اور کیوں ڈرے ہوئے ہیں؟ ہم اپنی الٹرا لبرل و سیکولر والی عینکیں اتار کر دیکھیں تو بات بالکل صاف سمجھ میں آجائے گی۔ آیا صوفیہ کی میوزیم والی حیثیت قانونی طور پر ناجائز ٹھہری ہے۔ اس کی مسجد والی حیثیت قانونی و تاریخی حیثیت سے اتنی مسلّم ہے کہ کوئی قابل ذکر عیسائی فرد بھی اسے چرچ نہیں کہہ رہا ہے۔ ورلڈ کونسل آف چرچس کے عبوری سیکریٹری جنرل Ioan Sauca نے اردوغان کو لکھے اپنے خط میں آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد بنانے کے فیصلے پر ”افسوس“ کا اظہار کیا ہے۔ اس کونسل کو عالمی سطح پر ساڑھے تین سو سے زائد پروٹسٹنٹ، آرتھوڈوکس، اور انگلیائی چرچوں کی سرپرستی کا اعزاز حاصل ہے۔ لیکن اس کونسل کے جنرل سیکریٹری نے برائے بیت بھی نہ کہا کہ اصل انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ آیا صوفیہ کو چرچ بنادیا جائے۔
پوپ فرانسس نے بھی اس اقدام پر ”درد“ محسوس کیا لیکن وہ بھی اتنی دیدہ دلیری کا مظاہرہ نہ کرسکے کہ اس مرکز توحید کو چرچ بنانے کی بات کہتے۔ ان راہبوں کی خدا پرستی کی شان نرالی ہے۔ خدائے بزرگ و برتر کی عبادت گاہ تماشہ گاہ اور عجائب خانہ بن کر اجڑی رہے یہ انہیں منظور ہے، مگر وہ خدا کے بندوں کے سجدوں سے معمور ہو، یہ منظور نہیں۔ ہمارے کچھ بھائیوں کا حال اس سے بھی برا ہے۔ تثلیث کے حامی تو مسجد کو میوزیم بنانا چاہتے ہیں لیکن ان موحدین کا کیا جائے جو مسجد کی بازیافت پر بارگاہ الٰہی میں ہدیہ تشکر پیش کرنے کے بجائے فیس بک پر اس بات کا غم منا رہے ہیں کہ مسجد، مسجد کیوں بن گئی، چرچ کیوں نہ بنی؟ حقیقت یہ ہے کہ آیا صوفیہ کو چرچ بنانے کی بحث انصاف کا تقاضا نہیں بلکہ فتنے کا وہ دروازہ ہے جس کے اوروں کی عیاری سے ٹوٹنے کا اتنا امکان نہیں جتنا اپنوں کی سادگی سے کھول دیے جانے کا ہے۔