اور ہند میں آخر کب تک۔۔۔!
بشری ثبات روشن، کانپور، یوپی
مکرمی!
زندہ قوموں میں بے گناہ مرنے والے مرتے نہیں بلکہ ایک سیلاب بن کر اٹھ جاتے ہیں۔ یہی تیونس کے دارالحکومت میں ہوا، مہنگائی سے تنگ آکر خودکشی کرنے والے ایک تیونسی مسلمان نے کئی مسلم ممالک کے عوام کو بیدار کیا اور تیس تیس سالوں سے برسر اقتدار حسنی مبارک اور زین العابدین جیسے طاقتور صدور کی کرسیاں الٹ کر دی ۔یہی ترکی میں ہوا جب فوجی بغاوت کے دوران ایک ترک ٹینکوں کے سامنے کھڑا ہوا تو عوام بھی اس مردانگی کو دیکھتے ہوئے اسکے ساتھ کھڑی ہو گئی اور پھر یہ بغاوت گھنٹوں میں ناکام ہوا اور یہی امریکہ میں ہوا جب ایک کالے شخص جارج کو پولیس نے نسل پرستی کی وجہ سے مار دیا تو امریکہ کی تاریخ کے بڑے احتجاجی مظاہروں نے جنم لیا اور ٹرمپ کو بائبل کی کتاب ہاتھ میں اٹھا کر چرچ کیطرف دوڑنا پڑا، مردہ قوموں میں راو انوار جنم لیتے ہیں جو چارسو لوگوں کو بے گناہ مار کر بھی آزاد گھومتا ہے جبکہ زندہ قوموں میں ایک خودکشی اور ٹارگٹ کلنگ انقلاب برپا کر دیتے ہیں ۔
اور آج ہمارے قوم کی حالت کیسی ہے دیکھو کوئی رہنمائی کرنے والا نہیں ہے۔ ہمارے شہر میں ریاست میں اور ملک میں اور جو ہے وہ اپنے لیے کرتے ہیں۔ہمارے پیارے کتنے قتل ہوگئے پہلوخان، اخلاق، تبریز انصاری، حافظ جنید، محسن شیخ۔۔۔۔ اور جو بے گناہ جیلوں میں بند ہیں بہن صفورا ذرگر، ڈاکٹر کفیل خان، اور شرجیل امام اور بہت سارے ہیں ۔
لیکن ہم خاموش کیوں ہیں ؟
کب ہم میں بدلاؤ آئے گا ؟
آخر کب انقلاب آئے گا ؟
مسلمانوں کے زوال کی وجہ عبادت میں کمی نہیں بلکہ دنیاوی معاملات میں بے ایمانی اور اسلام کو عبادات تک محدود کرنا ہے ۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی یہ ایک بات کہ ۔۔۔
” اپنے دلوں کو مضبوط بناؤ اور اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالو ۔ ”
عزیزوں تبدیلیوں کے ساتھ چلو یہ نا کہو کہ ہم تبدیلی کے لئے تیار نہیں تھے بلکہ اب تیار ہو جاؤ ستارے ٹوٹ گئے لیکن سورج تو چمک رہا ہے آس سے کرنیں مانگ لو اور آن کو اندھیری راہوں میں بچھا دو جہاں اجالے کی سخت ضرورت ہے ۔
تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہو سکے تو ہی انقلاب پیدا کر