حالاتِ حاضرہمضامین

لاک ڈاؤن کی آڑ میں۔۔۔

از: سلمیٰ نسرین

خدانخواستہ آنے والا وقت بہت سخت ہوسکتا ہے۔۔مسلم نوجوانوں کی مسلسل گرفتاریاں،ان مضبوط آوازوں کو دبانے کی بھرپور کوشش،اور مسلم خاندانوں کا بزور و جبر تبدیلئ مذہب کرانا ہرگز بھی نظر انداز کرنے لائق نہیں ہے۔۔۔۔

یہ تمام ناخوشگوار واقعات مستقبل میں صورتحال کے مزید بگڑنے کا پتہ دے رہے ہیں۔۔

رمضان المبارک کے یہ چند دن اور بس کچھ راتیں ہمارے لئے حد سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں کہ اپنے لیے ہر خیر و بھلائی و عافیت مانگ لیں اللہ سے۔

پچھلے رمضان سے اس رمضان تک ہم ایسے بدترین حادثات کے گواہ بن گئے ہیں جو پھلی نسل نے ستر سالوں میں نہیں دیکھے تھے۔۔
لاسٹ رمضان بھلا ہم نے کب سوچا تھا کہ آئندہ سال اہل ہند کے لیے ایسا سخت ثابت ہوگا۔ماہ جون میں تین طلاق کا قانون،3 اگست سے تا حال کشمیر پر غاصبانہ قبضہ و لاک ڈاؤن، شہریت ترمیم قانون کی تلوار، AMU اور جامعہ کے طلباء پر حملے ، احتجاجیوں کا مہینوں سڑک پر رہنا، عوام کا پولس کے ذریعے لاٹھیاں،گولیاں کھانا،۔۔دہلی مسلم کش فساد۔ اور پھر یہ کورونا کی جان لیوا وبا۔۔
اور لاک ڈاؤن کی آڑ میں حکومت وقت کا اپنی ناپاک سازشوں پر یوں عملدرآمد۔۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ذرا بھی اندازہ ہوتا تو ہم پچھلے سال ہی تڑپ کر اللہ سے اپنی حفاظت و آسانی کی دعا کرلیتے۔۔گو اس میں شک نہیں کہ یہ ساری صعوبتیں ہمیں بہت کچھ سکھا بھی گئیں اور مسلسل سکھارہی ہیں۔۔اس کا سب سے مثبت پہلو امت کے نوجوانوں کا ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا ہے۔۔۔ہماری خواتین کے بے مثال جذبہ اور لائق تحسین بہادری،استقامت و شجاعت نے بہتوں کو ورطئہ حیرت میں ڈال دیا۔۔۔۔مسلم لڑکیوں کی بہادری نے دنیا کے منہ پر طمانچہ رسید کردیا۔۔۔۔اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اگر کورونا کی آفت نہ ٹوٹتی تو آج بھی یعنی رمضان میں بھی شاھین باغ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ محاذ پر ڈٹا ہوتا۔۔۔اور اس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں ہلتا جب تک سی اے اے CAA منسوخ نہ ہوجاتا۔۔

امتحانات کڑے ہوسکتے ہیں ان کے جھیلنے اور برداشت کرنے کے لئے قوت ایمانی بہت ضروری ہے۔رمضان، سال بھر کے لئے ایمان کی بیٹری کو چارج رکھتا ہے۔
ذرا غور فرمالیں کس لیول پر ہے یہ بیٹری۔۔۔
اگر low ہے تو چار پانچ دن اب بھی مٹھی میں ہیں ‌۔۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو منانے کے لیے چند خالص لمحے اور نین کٹوروں سےٹپکتے قطرے بھی بہت ہیں۔۔۔
وہ راضی ہوجاتا ہے۔۔۔بہت جلدی مان جاتا ہے۔
اسی لیےتو کالے کرتوتوں سے آلودہ، سیاہ ترین نامہ اعمال کے باوجود ہم لپک کر اسی کی طرف دوڑتے ہیں اور وہ پیارا رب اس سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ اپنی رحمتوں بھری آغوش میں ہمیں سمیٹ لیتا ہے۔

وہ کیسے ہمیں ضائع ہونے دے گا۔ جبکہ اس نے ہمیں بہت محبتوں سے بنایا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!