روزہ رمضان اور ہم
محمد یوسف سگری نالاسو پارہ
چند دن کی بات ہے رمضان کامہینہ ایک بار پھر ہما رے درمیان آنے والا ہے اور اپنی رحمتوں کی بارش سے ہم سبکو فیض یاب کریگا۔اس مہینے کی عظمت و برکت کا کیا کہنا جسے خود نبی کریم صلی علیہ وسلم نے "شھر“ عظیم“ اور شھر“ مبارک“ کہا ہے۔
رمضان کا مہینہ اسلئے عظیم ہے اس میں قرآن مجید نازل ہوا۔”ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا”.(القدر -۱)
رمضان کا ہر دن خوشی کا دن اور ہر رات مبارک رات ہوتی ہے۔قرآن مجید میں روزہ کا مقصد تقویٰ اور پرہیز گاری بتایا گیاہے۔”اے لوگوں جو ایمان لائے ہو،تم پر روزے فرض کر دیے گئے ،جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقوی کی صفت پیدا ہوگی۔(البقرہ – ۱۸۳)
تقویٰ کے لغوی معنی بچنے کے ہیں یعنی اس دنیا میں رہتے ہوئے اللہ کے احکام کو ماننا اور برائیوں سے اپنے دامن کو پاک رکھنا ہے۔ "تقویٰ ،قلب و روح،شعور و آگہی،عزم و ارادہ،ضبط و نظم ،اور عمل و کردار کی اس قوّت اور اس استعداد کہ نام ہے کہ جس کے بل پر ہم اس چیز سے رک جائیں جس کو ہم غلط جانتے اور مانتے ہوں اور اپنے لیے نقصان دہ سمجھتے ہوں،اور اس چیز پر جم جائیں جسکو صحیح جانتے اور مانتے ہوں۔”(خرم مراد)
انسانی تاریخ گواہ ہے کہ انسان روحانیت کی تلاش کے لیے ہمیشہ جنگلوں میں رہتا رہا ہے،دنیا سے پوری طرح کٹ کر روحانیت کی تلاش کرتا رہا ہے جس کی وجہ سے اسکا معاشرے سے تعلق ختم ہو جاتا ہے۔دوسری طرف مادّہ پرستی ہے جس میں صرف پیسہ کمانے کے لیے تمام صلاحیتوں کا استعمال کرتا رہا ہے یہاں تک کہ اس سے اخلاقی حدود پار کرتا رہا ہے۔انسان مادّہ پرستی سے معدہ پرستی کی طرف جاتا ہے جس میں صرف اسے معیار زندگی بلند کرنے کی فکر ہوتی ہے۔
اسلام اسکے بالمقابل روحانیت کی ایک متوازن راہ دکھاتا ہے۔وہ روحانیت کو حاصل کرنے کے لیے عبادت کا تصور دیتا ہے بلکہ اُسے زندگی کا مقصد ٹھہراتا ہے۔ان عبادات کے ذریعے انسان روحانیت بھی حاصل کرتا ہے اور معاشرے میں رہ کر اپنی صلاحیتوں کے ذریعے خلافت کے منصب کو بھی ادا کرتا ہے۔(ارکان اربعہ,مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ)
روزے کے اثرات مسلمان کی زندگی پر۔
حیوانی زندگی کے مطالبات میں یہ مطالبے اصل بنیاد کا حکم رکھتے ہیں۔
۱- بقائے نفس کے لیے غذا کا مطالبہ –
۲- بقائے نوع کے لیے صنف مقابل سے اتصال کا مطالبہ۔
۳- اپنی کھوئی ہوئی طاقتوں کو بحال کرنے کے لیے آرام کا مطالبہ- (اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر،مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ)
۱- بقائے نفس کے لیے غذا کا مطالبہ۔
انسان کو کھانا صرف کھانا نہیں بلکہ اچھا کھانا چائیے ہوتا ہے۔ اسکا نفس اس سے مزے دار کھانوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ان کھانوں کے بنانے کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد ہوئے جس کے ذریعے انواع قسم کے کھانے بنائے جاتے ہیں جس سے لگتا ہے انسان صرف کھانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔
۲- بقائے نوع کے لیے صنف مقابل سے اتصال کا مطالبہ۔
اللہ نے انسان کے اندر جنسی خواہش بھی رکھی ہے وہ اُسے پورا کرنے کے لیے خوب نزاکتیں اور باریکیاں چاہتا ہے۔غرض اس سلسلے میں بھی کئی مطالبات ہیں جسکا سلسلہ کہیں نہیں رکتا۔
۳- اپنی کھوئی ہوئی طاقتوں کو بحال کرنے کے لیے آرام کا مطالبہ-
انسان آرام اس لیے کرتا ہے کی کھوئی قوتوں کو بحال کر سکے لیکن وہ اتنا آرام کرتا ہے کی محنت سے جی چراتا ہے، محنت کے بغیر کام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔خصوصاً ایسے کاموں کے لیے محنت نہیں کرتا جو حیوانی زندگی سے بالاتر ہو۔
انسان کم کھائے،جنسی خواہشات پر قابو رکھے اور کم آرام کرے تو وہ روح کو پاک و صاف کر سکتا ہے اور دنیا میں اسلام کے لیے کام کرسکتا ہے۔ ہم آج مسلم معاشرے کو رمضان کے مہینے میں دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ رمضان کھانے،پینے اور سونے کا مہینہ ہے۔جو مہینہ یہ تین چیزوں پر قابو پانے کے لیے آیا تھا وہ اس مہینے اور زیادہ بڑھ جاتی ہیں
۔رمضان کے مہینے میں ہم قرآن کی تلاوت ،ترجمہ پڑھ کر اُسکے احکام پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔کورونا وبا کی وجہ سے مسجد میں نماز با جماعت کا اہتمام مشکل ہے تو ہم اپنے گھر میں نماز ، گھر والوں کے ساتھ با جماعت پڑھیں۔گھر پر چھوٹے بچوں کی تربیت پر بھی خاص توجہ دیں۔
آخر میں ایک حدیث کا ذکر کرنا ہے جس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” جبرائیل میرے پاس آئے اور کہا کہ جسے رمضان ملا لیکن بخشا نہیں گیا وہ بدقسمت ہو گیا۔میں نے کہا آمین۔(راوی،حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ،امام حاکم،ابن حبان،ابن خزیمہ,بیہقی،اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے). دیکھیے اس حدیث میں جبرائیل علیہ السلام کی دعا پر اللہ کے رسول آمین کہہ رہے ہیں۔اس رمضان کو آخری رمضان سمجھ کر اچھے سے عبادت کریں اور اللہ تعالیٰ سے اپنی بخشش کر والیں۔اللہ تعالیٰ اس رمضان کے ذریعے ہماری مغفرت فرمائے ۔آمین۔