جب کثرت میں وحدت کی سچی تصویر نظر آئی۔۔۔
تحریر: وزیر احمد مصباحی، جامعہ اشرفیہ مبارک پور
جب کبھی تنہائی میں وطن عزیز کے حالات پر تصوراتی دھارا دوڑانے کے حوالے سے فرصت ملتی ہے اور موجودہ واقعات و حالات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے تو اکثر نگاہوں کے سامنے اسی بھارت ورش کی تصویر دوڑ پڑتی ہے،جسے ہمارے پرخوں و پروجوں نے آپسی بھائی چارگی اور میل و محبت کے ساتھ پروان چڑھایا تھا۔مگر آج حالات اس قدر تعفن زدہ ہو چکے ہیں کہ قدیم بھارت کی تصویر اپنی حیثیت اجاگر کرنے میں قصہ پارینہ سے بھی آگے نہیں بڑھ سکتی ہے۔مگر پھر بھی اگر کبھی نگاہوں کے سامنے آپسی میل و محبت اور ہندو و مسلم اتحاد کا خوشنما منظر گردش کرتا ہے تو دل مچل اٹھتا ہے اور درون خانہ عقل سے لا شعوری طور پر یہ آواز آنے لگتی ہے کہ نہیں آج اس سوال کا جیتا جاگتا جواب مل چکا ہے جس کو کبھی معروف شاعر مرحوم جناب اجمل سلطان پوری صاحب نے اپنے اس شعر کے ذریعہ کیا تھا کہ
مسلماں اور ہندو کی جان کہاں ہے میرا ہندوستان میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
ہوا یوں کہ ابھی چند روز قبل جب میں نے آبائی وطن کے لیے محمدآباد (یوپی) ریلوے اسٹیشن پر سابرمتی ایکسپریس میں اپنی جگہ لی تو اتفاقاً میری سامنے والی سیٹ پر ایک غیر مسلم شخص سے ملاقات ہو گئی۔ کچھ دور چل کر جب اکثر لوگ اپنی اپنی منزل مقصود پر اتر چکے اور بوگی تقریباً تقریباً خالی ہو چکی تو ایک اور ٢٢،٢٠/ سالہ غیر مسلم نوجوان بھی ہماری ہی سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا۔اس وقت گھڑی کی سوئیاں تقریباً صبح کے ٩:٠٠/ بجا رہی ہوں گی ۔ابھی تک ناشتہ سےمنہ نہ لگانے کے سبب میں نے جلپان کے لیے قدرے سامان خرید لیا۔اسی اثنا میں اس غیر مسلم شخص نے بھی ،جو آج اتفاقیہ طور پر میرا شریک سفر بن چکا تھا ،اپنے بیگ سے توشہ سفر میں سے کچھ نکالا اور مجھے دعوتِ شرکت دے دی۔
یہ دیکھ کر کچھ عرصہ کے لیے تو میرے اندر ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو گئی۔میں سوچ و فکر میں گم ہو گیا کہ یا اللہ!!! ایک ایسا بندہ جو کہ غیر مسلم ہے اور میں اسے جانتا تک نہیں ہوں ،آخر یہ مجھے اپنے ساتھ دعوتِ خورد و نوش کی گزارش آخر کیوں کر کر رہا ہے؟ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب کہ پورا بھارت نفرت و حسد ،بغض ،کینہ پروریاور فرقہ پرستی کی بھیانک آگ میں جھلس رہا ہے۔ہر طرف مذہبی نفرت کے کھیل کھیلنے والوں نے اپنے پہرے بٹھا رکھے ہیں اور ان کے دلالوں کی فہرست، جس میں عام آدمی سے لے کر میڈیا و نیوز چینلز تک کے افراد شامل ہیں،برابر اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔آخر یہ شخص ان کے فریب و دجل سے کیوں کر بچ سکتا ہے؟ آخر اس وقت Young Mind کو Distroyed کرنے کی جو بھیانک وائیرس ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے اور اس نے شہر سے لے کر گاؤں اور چھوٹے چھوٹے قصبات تک کو اپنے چپیٹ میں لے لیا ہے، یہ شخص کیوں کر بچ سکتا ہے؟؟؟
یہ ساری فکریں اور تصورات ایک حالہ بنا کر مجھے برابر حیرت و استعجاب کی گہرائیوں میں غرق کرتی چلی جا رہی تھیں۔۔۔مگر۔۔۔مگر یہ سکوتی کیفیت یکایک خاموشیوں کی چہار دیواری سے نکل کر یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئی کہ نہیں۔۔۔ابھی بھی خاک ہند میں بھارت کی سچی اور حقیقی تصویر پوشیدہ ہے جو وقت پاتے ہی اپنی سنہری یادوں سے عقل و خرد میں ایک ہلچل سی پیدا کر جاتی ہے۔وہ اس طرح خوشیوں کا سماں نگاہوں کے سامنے منتج کر جاتی ہے کہ دل فرحت و مسرت سے جھوم اٹھتا ہے ۔ہاں ! اس وقت سچ میں میرے سامنےکثرت میں وحدت کی سچی تصویر ابھر گئی تھی۔
مگر اس وقت محض شناخت کی بنیاد پر شرپسندوں نے ملک کی آشتی بھری فضا کو خوف و دہشت سے لبریز کر دیا ہے۔ہر دن یہ خبر پڑھنے کو ملتی ہے کہ آج فلاں مسلم کو محض شناخت کی بنیاد پر مار ڈالا گیا، فلاں دلت کو شادی میں گھوڑے پر سوار نہیں ہونے دیا گیا،معاشرے میں اسے ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا اور فلاں فلاں غریب کو روڈ کنارے ایک خفیف سی غلطی کرنے پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ یقیناً اس وقت ہمارا ملکی میڈیا زرخرید غلام بن چکا ہے۔حالیہ جاری شدہ ایک ویڈیو کلپ جو India Tv کی طرف سے وائرل کیا گیا ہے۔۔۔اس میں معروف خطیب مولانا شہر یار پورنوی کو ایک تقریری ویڈیو کی ایڈیٹنگ کرکے جس طرح پھانسنے ،بدندم کرنے اور نفرت انگیز بیان دینے والا قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔کافی حد تک افسوسناک اور حیرت انگیز ہے کہ آخر میڈیا ہی اس طرح اعلی پیمانے پر نفرت و حسد کی سوداگری کیوں کر رہی ہے؟ اینکر نے نمک مرچی لگا کر جس طرح رائی کو پہاڑ بنانے کی کوشش کی ہے وہ جمہوری قدروں سے کسی طرح بھی میل نہیں کھاتا ہے۔۔۔حالانکہ اسے جمہوریت کا چوتھا ستون کہا گیا ہے۔
دورانِ سفر دونوں شریک سفر سے میرا مختلف موضوعات پر تبادلۂ خیال ہوتا رہا۔۔۔حتی کہ اس نے اپنے گھر کے حالات سے بھی آگاہ کیا اور اپنی مصروفیات کا بلا جھجھک تذکرہ کیا۔یقینا ہمارا ہندوستان اسی گنگا جمنی تہذیب کا ایک حسین سنگم ہے ۔آپسی پیار و محبت اور بھائی چارے کی جو مثال آزادی ہند کے بعد نظر آئی تھی آج میں نے خود اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کیا تھا۔وہ بھی ایک ایسا منظر جو ان سیاسی گلیاروں کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ کی مانند تھا جو رات دن بس ہندو و مسلم کے نام پر ووٹ بینکنگ کے لیے دنگا بھڑکانے کا گھناؤنا کام کرتے رہتے ہیں اور اس میں مزید کمک پہنچانے کے لیے ان کے ذاتی میڈیا چینلس اور ویب سائٹ نہلے پہ دہلا کا کام کرتے ہیں۔یہ باتیں میں اس لیے تحریر کر رہا ہوں کہ یہ دونوں غیر مسلم حضرات مزدوری کیا کرتے ہیں اور اپنے کام کی بنا پر سوشل میڈیا سے بہت کم ہی تعلق رکھتے ہیں۔
اب چلتے چلتے جب ملکی حالات پر تبصرہ شروع ہوا تو پھر اس نے مسٹر مودی ،امت شاہ اور یوگی پر جو تیکھا حملہ کیا وہ اس بات کی سچی ترجمانی تھی کہ انھیں نفرت کی سیاست کرنے والے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔انھیں ان لوگوں سے شدید نفرت ہے جو سیاست کی کرسی پر بیٹھ کرمحض ہندو مسلم کی ہی گوٹی کھیلتے ہیں___یہ بھولے بھالے سادہ دل باشندگان ہند تو بس امن و آشتی کے پیامبر اور وطن عزیز کو ترقیاتی شاہراہوں سے ہم کنار کرانے والے افراد ہی کو پلکوں پہ بٹھانے کی بات کرتے ہیں۔۔۔۔مگر صد افسوس کہ !!! اب یہاں ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں؟۔