سماجیمذہبیمضامین

مثالی معاشرہ، اسلامی حدود کے بغیر ناممکن

تحریر: محمد قاسم ٹانڈوی، رامپور یوپی

روئے زمین پر رائج ادیان و مذاہب میں جو امتیازی خصوصِیّات اِلہی دین، دینِ اِسلام کو حاصل ہیں؛ ان خصوصیات سے دِیگر اَدیان و مذاہب کے دامن خالی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس دینِ مبین کی مقدّس تعلیمات عالمِ اِنسانیت کی بقا اور ہر ذِی شعور کی دنیاوی و اُخروِی زندگی کی کامیابی کے واسطے بہترین ضامِن قرار دی جاتی ہیں۔ قرآن مجید کی مُتعدَّد آیاتِ مبارکہ اور احادیثِ رسول (ﷺ) میں واضح طور پر ان خصوصیات کا جگہ جگہ ذکر کیا گیا ہے؛ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”جو شخص بھی دینِ اسلام کے علاوہ کوئی اور دین اِختیار کرےگا؛ ہرگز ہرگز قبول نہیں کیا جائےگا” اسی طرح سورہ مؤمِن کی پہلی ہی آیتِ کریمہ میں اللہ پاک اہلِ ایمان کی کامیابی کو یوں اِرشاد فرماتے ہیں:”یقیناً ایمان والے کامیابی پا گئے”۔

الغرض ! توحید و رسالت کا اقرار، ایمان و ایقان اور عقائد و خیالات کی پُختگی، اَخلاق و کِردار کی بےمثالی، اپنی موت و حیات سے باخبری، قبر و حشر میں پیش آنے والے مراحِل سے آگاہی نیز  زندگی اور مابعدِ زندگی جن جن پہلوؤں سے ایک انسان کو واسطہ پیش آ سکتا ہے ان تمام کو ہادیٴ عالم سرورِ دوجہاں حضرت محمد مصطفیٰ(ﷺ) کی زبانی امت کو مکمل و مدلل اور جامع طور پر باخبر کرا دیا گیا ہے، ساتھ ہی بطورِ پیشن گوئی و معجزہ آفتابِ رسالت، مہتابِ نبوت کی زبانِ حق ترجمان آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال قبل ہی قیامت تک برپا ہونے والے فِتنوں اور وقفہ وقفہ سے جنم لینے والی برائیوں کے سلسلے میں بھی لوگوں کی رہنمائی کر گئ ہے، اب یہ انسان کا مقدر اور نصیب ہے کہ وہ کہاں کہاں اپنے آپ کو انوارِ نبوت کی ضیا پاشیوں سے منوّر کرنے کے بعد اپنی آخرت کو بہتر و بامقصد بنانے میں کامیاب ہوتا ہے اور کون اس دنیا کی رنگینیوں میں بدمست ہو کر اپنے ہی ہاتھوں اخلاق و کردار کی خودکشی کرنے کے بعد مابعدِ موت پیش آمدہ ہمیشہ ہمیش کی زندگی کو جہنم کا حقدار بنا کر خود کو محروم و نامراد رکھتا ہے؟

ایک مؤمِنِ کامل سے اس کا ایمان اس سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ زندگی کے نشیب و فراز اور حالات کی ناسازی سے جب بھی واسطہ لاحق ہو تو وہ ہر ممکن طور پر اپنے ایمان کی سلامتی کو برقراربرکھنے کی فکر اور کوشش بجا لائے، جب بھی کبھی حالات و معاملات اس کے اور مذہب کے مابین متصادم ہوتے نظر آئیں تو اس کی اولین ذمہ داری یہی ہونی چاہئے کہ کسی بھی قیمت پر اس کا دامن عشقِ اِلٰہی اور محبتِ رسول سے علیحدہ یا کمزور نہ ہونے پائے بلکہ ایسے شخص کے لئے اللہ کے حبیب (ﷺ) کی خوش خبری اور وعدہ ہے کہ:ایسے حالات میں جبکہ لوگوں کے درمیان سے سنتوں کی اہمیت و وقعت اٹھ چکی ہو، لوگ ترکِ سنت کے عادی ہو گئے ہوں، ایسے میں اگر کوئی بندہ میری سنت کو زندہ کرےگا تو اسے سو شہیدوں کے برابر اجر ملےگا”۔آج جو حالات ہیں وہ سب ہمارے سامنے ہیں، کوئ موقع کوئ راستہ اور کوئ مقام ایسا نہیں ہے جہاں ترکِ سنت اور خلافِ شریعت امور سے ہمارا لاحِقہ اور واسطہ نہ ہو خاص کر ہمارا نوجوان طبقہ جو اپنی عادات و اخلاق میں روز بروز اسلامی ماحول سے دور اور مغربی تہذیب و تمدن کی عادی اور رسیا ہوتی چلی جا رہی ہے۔

وہ قابلِ افسوس اور رنج و فکر کا باعث ہے، اسے چاہئے کہ وہ خود کو اسلام کے دامنِ رحمت سے وابستہ کرے اور اپنی تمام تر صلاح و فلاح اور دنیاوی و اخروی نجات کےلئے پروردِگارِ عالَم کے پسندیدہ مذہب کی تعلیمات اور نبئ آخِرالزماںؐ کے فرامین پر تن من سے قربان ہو جانے کا ولولہ اور عزم و حوصلہ پیدا کرے اور اپنے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں اس بات کو راسخ و پختہ کرے کہ ‘مذہبِ اسلام ہی تمام رائج مذاہب میں حق و صداقت کا پیامبر ہے اور یہی پوری انسانیت کی بقا اور نجات کا بہترین ذریعہ ہے’۔

بہر حال یہاں ہم جو گفتگو کرنے جا رہے ہیں وہ ہے عالَم عیسائیت سے ماخوذ ہوکر آنے والی بھیانک و خوفناک بلکہ یوں کہئے کہ وہی تمام فسادات کی جڑ اور اصل ہے، جس میں ایک طرف مرد و زن کا بےمحابا اختلاط ہوتا ہے، نوجوان لڑکے لڑکیوں کا باہمی مِلاپ اور تنہائی میں راز و نیاز کی باتیں کی جاتی ہیں، جہاں جِدّت پسندی کا لیبل چسپاں کرنے کے بعد بےحیائی و بےشرمی کا کھلے طور پر اظہار و اعلان کیا جانا قابلِ فخر کارنامہ تصور کیا جاتا ہو، وہ مخصوص دِن “ویلنٹائن ڈے” جس نے تیزی کے ساتھ اسلامی معاشرہ کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔

ماہ فروری کے آغاز ہوتے ہی اس دن انجام دی جانے والی خرافات و شنیعات اور بےہنگمی میں شریک ہونے کے واسطے شِدِّت کے ساتھ 14/فروری کا انتظار کیا جانے لگا ہے۔ حالانکہ ایک صالح اور پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کے قیام میں جتنی واضح تعلیمات مذہبِ اسلام نے اپنے ماننے والوں کےلئے بیان کی ہیں اتنی کسی دوسرے مذہب میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں، بلکہ مذہبِ اسلام نے آج سے چودہ سو برس قبل ہی ظاہر کی صاف صفائی سے لے کر باطِن کی کبیدگی، دل و دماغ کی سائستگی اور اپنی نگاہوں کی حفاظت اور دیگر اعضاۓ انسانی کے جائِز استعمال کا منثور جاری فرما کر معاشرے میں پنپنے والی  ہر برائی کے سدِّباب کا اعلان کیا تھا، اور اِنسدادِ فواحش کی روک تھام کرنے کی ذمے داری ہر ذی حِس اور ہوشمند شخص پر عائد کی تھی، چاہے اس کا تعلق کسی بھی فرقے، طبقے اور برادری سے کیوں نہ ہو۔

آج کے حیا سوز واقعات کے رونما ہونے میں اقوامِ عالم کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ معاشرے سے ہر طرح کی خرابی اور آوارگی کو دور کرنے کے واسطے اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ تعمیری اور فلاحی منصوبے کےارادے سے فروغ دیں اور نوجوانوں میں پنپنے والے افکار و خیالات کی بالیدگیوں اور خرابیوں سے معاشرے کو بچائیں۔رہی بات منصوبہ بندی اور تعمیر سازی کی تو یہاں یہ امر متحقق ہو جاتا ہےکہ:”کسی بھی تہذیب کے ارتقاء اور فروغ میں سب سے زیادہ اہم اور مرکزی کردار تعلیم کا ہوتا ہے، اور آج کا ہمارا یہ موجودہ معاشرہ جو سلسلہ بہ سلسلہ روبہ زوال ہے اور دن بدن مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگتا چلا جارہا ہے۔

بلکہ بھرپور طریقوں سے بائیکاٹ کی مہم بھی چلائی تھیں، جس کے ردِّعمل میں ہمارے ان اکابر و بزرگاں کو ایک طرف سے تو قوم کے سب و شتم اور الزام و اتہام کا نشانہ بنایا گیا؛ بایں معنی کہ یہ علماء دراصل قوم کو پستی، اِنحطاط اور زوال سے ابھرنے ہی نہیں دینا چاہتے، حالانکہ ہمارے اکابر بِالواسطہ انگریزی تعلیم کے مخالف نہیں تھے بلکہ اس قوم کی مرتَب اور متعین کردہ تعلیم کے سخت مخالف تھے جسے وہ اپنی دوربین نگاہوں سے تاڑ رہے تھے جس میں انگریزوں کے درپردہ اسباب و عوامل کارفرما تھے یعنی مغربی تہذیب کا ‘ارتقاء’۔ ہمارے اکابرین اسی تہذیب و ثقافت کے دل و جاں سے مخالف تھے، جس کو انہوں نے اپنی فراست ایمانی کے طفیل نورِباطن کی شعاؤں سے محسوس فرما لیا تھا. جس کے بارے میں حدیث میں کچھ اس طرح سے اشارہ کیا گیاہےکہ،مفہوم: ‘مؤمن کی فراست سے بچو، اس لئے کہ وہ ہر شئے کو نورِاِلٰہی سے دیکھتا ہے’۔

ذرا آپ غور فرمائیں ! اور شرق و غرب پر ایک نظر دوڑائیں؛ کہ آج جن جن مسائل کا سامنا مجموعی طور پر عالمی برادریوں کو ہے اور جن سے دنیا کی تہذیب یافتہ قومیں جوجھ رہی ہیں، اس طور پر کہ آئے دن حیا سوز، دل سوز، حواس باختہ اور نگاہوں کو خیرہ کردینے والے مناظر کی قدم قدم پر ہونے والی منظر کشی سے وہ سب حیران و پریشان ہیں کہ نہیں؟

بلکہ آپ خود معترِف ہو کر ان کو نادم و شرمندہ بھی پائیں گے اس لئے کہ مغربی تہذیب کا کوئ کام اور مرتب کردہ کوئ بھی نظام ایسا نہیں ہوتا جو مشرقی تہذیب سے اور خاص کر ہماری شریعتِ مطہرہ سے متصادم نہ ہو، اور اگر بِالفرض والمحال یہ پروگرام خالص مذہبی اور شرعی امور سے تعلق رکھنے والے ہوں تو یہ تصادم اور بھی زیادہ ہی بڑھا ہوا نظر آتا ہے، اس لئے کہ اہلِ مغرب کا ہمیشہ سے باطل امور کی انجام دہی اور عقل انسانی سے وراء الورا چیزوں کی ترسیل اور ان کو میدان عمل میں لاکر پورے سماج اور معاشرے کو جہنم زار بنا دینا محبوب مشغلہ رہا ہے۔۔۔

مگر افسوس…! آج ہمارے بعض نوجوان اور سادہ لوح افراد، جو کہ اس پُرفِتن اور پرآشوب دور میں اچھے برے کے درمیان معیار قائم کرنے سے تہی دامن اور توفیقِ الہی سے کوسوں دور ہیں، آج وہی سب لوگ ان کے مکر و فریب اور سازِشوں کا شکار بآسانی ہو جا رہے ہیں، جو کبھی تو فیشن کے نام پر اور کبھی حالات زمانہ سے مرعوب ہوکر اپنے روز و شب گزارنے قہوہ خانے اور نائٹ کلبوں میں چلے جاتے ہیں اور تو اور جن کو اپنے انجام کی بھی پرواہ نہیں ہے، وہ سب بھی موجودہ حالات میں وقت کے سب سے بڑے فتنے سے پنجہ آزمائی کرنے میں لگے ہیں اور موبائل/اسمارٹ فون کے ذریعے نیٹ کا بےجا اور بےمحابہ استعمال کرکے اور اس کی زیاکاریوں میں ملوث ہوکر بےلگامی کی زندگی گزار رہے ہیں، اور باطل طاقتوں کی طرف سے پیش کردہ تحریکات کا آلہ بن کر اپنی اور اپنے عزیزوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے پر اتاولے ہیں۔

اور بےحیائی، عریانیت، فحاشی اور بےغیرتی کا لبادہ اوڑھے ہوٹلوں، منڈپوں، چوراہوں اور عام خاص کی گزرگاہوں پر کھلے عام شرم و حیا، عفت و عصمت اور پاکدامنی کو تارتار کر باحیا انسانوں کا جینا دوبھر اور ان کے ضمیر کو پانی پانی کر رہے ہیں، اور مستزاد یہ کہ انسانیت سوز ان گندی اور غلیظ حرکتوں کو حکومتوں کی پشت پناہی حاصل ہے اور وہ کچھ بھی ان حرکتوں کے انجام دینے والوں کو روک ٹوک کرنے کے لئے جامع قوانین مرتب کرنے کے مونڈ میں نہیں ہے۔

جس کی تازہ ترین مثال 14/فروری کو ویلنٹائن ڈے یعنی “یومِ محبت اور یومِ عُشَّاق” کے روپ میں منا کر نوجوان نسل کو فحاشی اور عریانیت کی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈھکیل کر کھلے عام زنا کی دعوت دینا بھی ہے، جس کی نہ کوئی مذہب اجازت دیتا ہے اور نہ ہی کوئی مہذب برادری پسندیدگی کی مہر لگاتی ہے اور یہ وقت کا سب سے بڑا المیہ ہےکہ کوئ ملک اس کے تئیں قانون سازی اور اِرتکابِ جرم کی دفعہ مرتب کرنے میں دلچسپی کا اظہار نہیں کر رہا ہے جس سے کہ فواحِش پر روک تھام اور اِنسدادِ عصمت دری میں ایک گونا تعاون اور کامیابی حاصل ہو، سیکولر ممالک کی حکومتوں اور سربراہان کو چاہئے کہ “وہ انسانی معاشرے کو مثالی معاشرہ بنانے کے لئے اسلامی قوانین اور حدود کا بغور جائزہ اور مطالعہ کرنے کے بعد اپنے اپنے ملکوں میں ان کو رائج کریں اور اس کے بعد دیکھیں معاشرہ میں کیسے تبدیلی رونما ہوتی ہے اور کیسے دنیا امن کا گہوارہ ہوتی ہے؟ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!