مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
عفان معین خان، الجامعہ الاسلامیہ، شانتاپرم
وطنِ عزیز میں جس دور سے آج ہم گزر رہے ہیں اس سے پہلے شاید ہی ایسے سنگین اور نفرت و تعصب آمیز دور سے گزرے ہوں۔ دہلی کے جامعہ میں جو حادثہ پیش آیا یا دوسری یونیورسٹیز میں جو پیش آتا رہا ہے اور اس سے قبل بھی پچھلے کئی سالوں سے جو مذہب اور حب الوطنی کے نام پر حادثات ہو رہے ہیں وہ دل دہلا دینے والے ہیں۔
ان حادثات پر طائرانہ نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حادثات جہالت، گندی سیاست اور انتہا پسندی کا نتیجہ ہیں۔
عوام کی “ایشوز سے ناواقفیت” سے فائدہ اٹھا کر ایک خاص ذہن رکھنے والی “انتہا پسند تنظیم اور سیاسی پارٹی” اسے “مذہبی انتہا پسندی” کے رنگ میں رنگ کر اپنے منصوبوں کو ہندوستان کے خوبصورت دامن پر داغ کی صورت میں پائے تکمیل تک پہنچا رہی ہے۔
ہم اب مزید اس خوش فہمی میں نہیں رہ سکتے کہ ہندوستان کی صد فیصد عوام تو امن پسند ہے مگر انتہا پسند تنظیمیں اور سیاسی پارٹیاں دہشتگردی، نفرت، بغض و عناد اور تعصب کی سرگرمیوں کا بازار گرم کر رہی ہیں بلکہ ہمیں اب اس امر کو قبول کرنا ہوگا اور تب ہی ہم درست لائحہ عمل ترتیب دے سکتے ہیں، کہ ملک اس دور سے گزر چکا، اب یہ تحریک اپنے اگلے مرحلے میں ہے جہاں ان منفی عناصر کو فروغ دینے میں عوام بھی (قلیل ہی سہی) شانہ بشانہ سرگرم ہے۔
وطن عزیز کی اس نازک حالت کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ جو ملک اپنی گنگا جمنی تہذیب اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی پوری دنیا میں اپنی مثال آپ تھا، وہ کس قدر پستیوں میں گر رہا ہے اور آج پوری دنیا اسے حقارت کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔
بےشک ملک کی بڑی آبادی، بالخصوص پڑھا لکھا طبقہ نفرت و تعصب کی سیاست سے اپنے آپ کو بچائے ہوئے ہے اور وہ اپنی آنکھوں و ذہنوں کو کھول کر حالات کا جائزہ لیتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال دستور مخالف قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج ہے، لیکن ایک خاص مزاج و ذہن رکھنے والی تنظیم اور سیاسی پارٹی نے عوام کی آنکھوں اور ذہنوں پر نفرت و تعصب کی پٹی باندھی اور ان کے دلوں میں مختلف قسم کے اندیشوں کے زہر گھولے۔ وہ اس ملک کو ایک بالکل ہی مختلف رخ دینا چاہتے ہیں۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے ان ناپاک مقاصد میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
جہاں ملک کی یہ سیاسی پارٹیاں اور انتہا پسند تنظیمیں اس کی ذمہ دار ہیں وہیں ہم بھی ان حالات کے ذمہ دار ہیں۔ ہم نے ہمارا فرض منصبی پس پشت ڈال دیا۔ ہم نے برادران وطن میں محبت کا رس گھولنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ہم اسلام کی حقیقی تصویر لوگوں کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہے۔ ہم نے اسلام کو اپنی زندگیوں میں نافذ نہیں کیا اور نہ ہی اپنی عملی زندگی سے اس کا اظہار کیا۔
آج بھی ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد ہیجانی کیفیت کا شکار ہے۔ ہماری بڑی آبادی اپنے مقصد زندگی کو فراموش کیے ہوئے ہے۔ ان کی بڑی تعداد علم و عرفان اور حکمت و دانش کے نور سے محروم ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جذباتی ہو جانا ان کی پہچان ہے۔ ذرا ذرا سی باتوں پر جھگڑنا اور گالیاں دینا ان کا شیوہ ہے۔ آج ہماری اسلام سے خالی زندگیاں اور ملک میں پروان چڑھنے والا نفرت و تعصب کا ماحول اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے اسلام اور قرآن کو کما حقہ سمجھا ہی نہیں ورنہ نفرت اور تعصب کی یہ دیواریں ملک میں کبھی کھڑی ہی نہ ہوتیں اور شاید آج ہم ان حالات سے دوچار نہ ہوتے۔
آج بھی وقت ہے کہ ہم اپنی ان کمزوریوں کو دور کریں، خدمت خلق اور احسان کی مثال بنیں، اپنے نوجوانوں کو ایجوکیٹ کریں، انہیں حسن اخلاق کا پیکر بنائیں، لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے والے بنیں، لوگوں کا بوجھ اٹھانے والے ہوں، محبت و ہمدردی ہمارا شیوہ ہو، صداقت و امانت اور عہد کی پاسداری ہماری پہچان ہو، حکمت و بردباری کے ہم پیکر ہوں، لوگوں کے لیے نفع بخش ہوں اور ملک کے بہترین باشندے بنیں۔ غرض یہ کہ یہ اور ان جیسی قرآنی صفات کو اگر ہم اپنی زندگیوں میں پیدا کرلیں تو نہ صرف یہ ملک بلکہ پوری دنیا ہمیں ہاتھوں ہاتھ لے گی اور ہماری موجودگی پر فخر کرے گی اور کیوں نہ کرے فخر کہ یہ گوہرِ انسانی آج اس مادہ پرست و خود غرض دنیا میں نایاب و مفقود ہیں۔