بیدرمیں خواتین کا احتجاجی دھرنا، کہیں یہ”بیدر کا شاہین باغ” تو نہیں!
بیدر شہر کے امبیڈ کر سرکل پر مہاتما گاندھی کے یوم شہادت پر دو منٹ کی خاموشی کے ساتھ احتجاجی دھرنے کا آغاز کردیا۔ بیدر کی خواتین کا یہ احتجاجی دھرنا کہیں شاہین باغ طرزاحتجاج کی طرح کہیں یہ احتجاج “بیدر کا شاہین باغ” تو نہیں ہوگا!
بیدر: 30/جنوری (اے این بی) بیدر شہر کے امبیٹکر سرکل کی مصروف ترین روڑ پر چند خواتین کے ذریعے آج صبح گیارہ بجے کے قریب سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے مخالفت میں نعرے لگاتے ہوئے بیدر کی خواتین نے احتجاجی دھرنےکا اعلان کردیا۔ بیدر کی خواتین کے جانب سےجاری اس احتجاجی دھرنے میں چونکہ آج مہاتما گاندھی جی کی شہادت کا دن ہے دو منٹ کی خاموشی منائی۔ خراج عقیدت پیش کرنےکے بعد احتجاجی مظاہرے میں شریک تمام خاتون مظاہرین سے سابق ضلع پنچایت صدر محترمہ راجیشری سوامی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں جو قانون نافظ ہونے جارہا ہے، سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کی مخالفت میں یہ تمام احتجاجی مظاہرین جو سینکڑوں کی تعداد میں اکٹھے ہوئے ہیں۔ اس کا صاف مقصد یہی ہے کہ ان کالے قوانین کو واپس لیا جائے۔
لیکن یہ اندھ بھکت لوگوں کو یہ سمجھ میں کیوں نہیں آرہا کہ یہ صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے، بلکہ یہ تمام لوگوں کے لئے ہے جو اس اس آنسو کو یہاں سے اس بات میں ہے کہ یہ تمام ہندوستانیوں کے لیے قانون کالا قانون لایا جا رہا ہے اس کی مخالفت کرنا انتہائی لازمی ہےم کیونکہ یہاں ہمارے بزرگوں کے برتھ سرٹیفکیٹ ہم کہاں سے لائیں گے؟ ملک کی اکثریت پڑھی لکھی نہیں ہے، مزدور طبقہ، پیشہ ورانہ کام کرنے والے لوگ ہیں اس کے باوجود یہاں پر برتھ سرٹیفیکیٹ اور دیگر ایسے قانونی کاغذات بتانے کی بات کی جارہی ہے جو کہ غیر مناسب بات ہے۔
انہوں نے اس موقع پر اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بہت سارے ایسے لوگ اس ملک میں بستے ہیں یہاں کے شہری ہیں جو آدیواسی ہیں یہاں تک کہ ملک کے بہت سارے شہریوں کے پاس نہ تو ووٹر شناختی کارڈ ہے اور نہ ہی ادھار کارڈ ہے۔ مگر یہ سمجھ سے باہر ہے کہ حکومت اس قانون کو لاکر آخر کرنا کیا چاہتی ہے؟ اس قانون کو لانے کا مقصد آخر کیا ہے؟ لوگوں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں یا پھر مذہبی منافرت پیدا کرنا چاہتے ہیں یہ صاف صاف طور پر بتا دیجئے اور یہ بھی یاد رکھئیے کہ ہم اس ملک میں آپس میں بھائی چارگی کے ساتھ رہتے ہیں یہ ہماری تاریخ رہی ہے ہم کسی سے ڈرنے والے نہیں ہیں ہم جب تک ان کو حکومت واپس نہیں لے لیتی جب تک ہم خواتین لڑیں گی اور آگے بڑھیں گی۔
انہوں نے اس بات کی سختی سے مذمت کی ہے کہ ملک کے ایک شخص کی مخالفت کرنا دیش سے غداری نہیں ہے اورایک شخص ہی سارا دیش نہیں ہے۔ جبکہ ملک کی موافقت میں گاندھی جی کے سمرتھن میں ہزاروں لوگ امبیڈکر کی آواز ہوکر اس کالے قانوں کے خلاف لڑ رہے ہیں ان پر دیش دروہی کا مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ سارے ملک بھر میں اس طرح کے اقدامات کرتے ہوئے خوف و ہراس کا ماحول تیار کیا جارہا ہے جس کی ہم سختی کے ساتھ مذمت کرتے ہیں۔ جہاں پر فرد کی آزادی پر قدغن لگانے کا کام حکومت کی جانب سے کیا جارہا ہے۔ عوام بیدار ہوچکی ہے، بالخصوص خواتین اس جنگ کو لڑنے کے لیے اپنے آپ کو آگے پیش کیا ہے اور وہ سڑکوں پر آچکی ہیں تو اب انقلاب کا آنا یقینی ہے اور انقلاب آ کر ہی رہے گا۔
ایک اور خاتون نے کہا کہ اب ہم کسی سے نہیں ڈریں گے،گاندھی جی کی شہادت کے موقع پر ہم یہاں پر جمع ہوئے ہیں، ہم ان کالے قوانین کی مخالفت کرتے ہیں جو گاندھی جی کے وچار کے خلاف ہیں، ہم سب لوگ اس کی لپیٹ میں آنے والے ہیں جب تک یہ قانون واپس نہیں لیا جائے گا ہم خواتین نے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا طریقہ اور مصمم ارادہ کرلیا ہے۔
تیرے ماتھے پہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل ایک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
اس موقع پر رفعت متین خاتون میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم نے اس آنچل کو اپنا پرچم بنا لیا ہے اب اس کی مخالفت میں سڑکوں پر نکل آئی ہیں اور اس وقت تک اس کا مقابلہ کریں گی جب تک یہ قانون واپس نہیں لیا جاتا اس کا مقابلہ ڈٹ کر کرنے کی تمام سےاپیل کی ہے۔ اور کہا کہ
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اس موقع پر ایک اور خاتون نے مظاہرین کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گاندھی جی کے ہنسا کے خلاف تھے اورہم ان کےوچار کا احترام کرتے ہوئے عدم تشدد کی دعوت انہوں نے ساری دنیا کو دی، ہم اس پر چلنے کا عزم اس احتجاج کے ذریعے اعلان کرتے ہیں ہم احتجاج کریں گے لیکن تشدد کے ساتھ نہیں بلکہ عدم تشدد ہماری مخالفت میں نمایاں نظر آئے گا۔ ہم ظلم کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے چاہے ظالم کتنا ہی مضبوط طاقتور اور حکمران ہی کیوں نہ ہوں ظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ظالم کا بالکل مقابلہ ڈٹ کر کریں گے اور ہم خواتین ہی کریں گے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ بیدر کی خواتین کا یہ احتجاجی دھرنا کہیں شاہین باغ، دہلی کی خواتین طرزاحتجاج کی طرح کہیں یہ احتجاج بیدر کا شاہین باغ تو نہیں ہوگا! یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ خواتین اس احتجاجی دھرنے کو کس انداز میں اور کب تک جاری رکھتی ہیں۔ لیکن یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس طرح کا احتجاج آج بالخصوص خواتین خود اپنے طور پر منظم کرنے والی بات دیکھنے کو مل رہی ہے اور خواتین نے ہی اس دھرنے کو منظم کیا ہے۔
اس احتجاج کی خصوصیت یہ ہے کہ ان خواتین کی کوئی لیڈر نہیں ہے بلکہ ہر خاتون اپنے آپ کو لیڈر مانتے ہوئی نظر آرہی ہیں، پرجوش نعروں کے ساتھ انھوں نے اپنے احتجاج کو عوام کے سامنے رکھا، ہاتھوں میں جھنڈے اور پلے کارڈ تھامے ہوئے یہ خواتین سی اے اے این آرسی اور این پی آر کی زبردست مخالفت میں کرتے ہوئے نعرے بازی کر رہی ہیں۔ جب ان خواتین نے احتجاج کو درج کرنے کے لیے سڑک کی ایک طرف کنارے ہو کر بیٹھنا شروع کیا تو پولیس کے حکام نے پرمیشن کے متعلق بات کرنے کی کوشیش پر تب خواتین نے زبردست نعرے بازی کرتے ہوئے۔ سی اے اے این پی آر اور این آر سی قانون کو واپس لینے اور ہم سب ایک ہیں کے نعرے بلند کئے۔ واقعے پر موجود مظاہرین کے اس طرح کے بڑھتے ہوئے نعروں کے بیچ مختلف خواتین کی تعداد بڑھتی گئی اور اس مظاہرے میں خواتین کی تعداد میں لگاتار اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے،اور خواتین شریک ہو رہی ہیں۔
احتجاجی دھرنے میں بیٹھی خواتین مظاہرین سے مختلف ان ہی میں سے خواتین بھی خطاب کرتے ہوئے دیکھی جارہی ہیں۔ جنہوں نے اس احتجاجی مظاہرے کو بتایا جا رہا ہے کہ ایک طرزکا شاہین باغ بنانے کی بھی کوشش کی جارہی ہے، خواتین کے احتجاج کو عوام کے مختلف تنظیموں اور جماعتوں کی طرف سے تائید کی بھی اطلاعات مل رہی ہیں جن میں سیکولر سٹیزنس فورم بیدر بھی شامل ہے۔
تادمِ تحریر 5/ بجے شام تک کی اطلاعات کے مطابق پولیس احتجاجی دھرنے کو ختم کرنے کی مسلسل کوشش کر رہی ہے لیکن خواتین دھرنے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا محکمہ پولیس کے اعلیٰ عہدیداران خواتین سے بات چیت کرتے ہوئے انہیں احتجاجی دھرنے کو ختم کرنے کی اپیل پر کیا یہ خواتین اپنے احتجاجی دھرنے کو ختم کریں گی! یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔