سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ رویہ کیوں ؟
زین العابدین ندوی، نیرل، مہاراشٹر
پچھلے کئی سالوں سے لگاتار سپریم کورٹ سے صادر ہونے والے فیصلوں کے سبب عوام میں بے چینی کی لہر ہے ، عدالت کا وقار آئے دن مجروح ہوتا جا رہا ہے، اور اس کے تئیں بے اعتمادی کا سلسلہ زوروں پر ہے ، ہم جنس پرستی کا قانون ، رام مندر کی تعمیرکے حق میں بابری کے خلاف اور تین طلاق کے سلسلہ میں ظالمانہ قوانین کا نفاذ جس کی تازہ ترین مثالیں ہیں ، اور اب جب کہ بھارت جل رہا ہے ، عوا م سڑکوں پر ہے اور احتجاجات کی صداوں سے پورا ملک گونج رہا ہے ، ایسی نازک اور پر خطر صورتحال میں سپریم کورٹ کا چپی سادھ لینا اور فیصلہ سنانے کے بجائے انصاف پسند عوام کا دبے لفظوں مذاق اڑانا انتہائی افسوسناک بات ہے ، جس سبب عوام کی نظر میں عدالت کا معیار گرتا دکھائی دے رہا ہے اور کئی طرح کے شبہات دماغ میں جگہ بنا رہے ہیں۔
یہ بات تو ان پڑھ انسان بھی جانتا اور سمجھتا ہے کہ عدالت کس چیز کا نام ہے ، اور اس کا نام عدالت ہی کیوں رکھا گیا ، یہ لفظ خود ہی بتاتا ہے کہ وہ محض در ویوار کا نام نہیں ، اور نہ ہی وہ کوئی میوزیم ہے جس کی سیر کی جائے ، اور نہ ہی وہ کوئی سینما گھر ہے جس میں من چاہی فلمیں بنائی اور دکھائی جائیں ، بلکہ وہ انصاف کا کمرہ ہے جہاں حق اور ناحق کا فیصلہ کیا جاتا ہے ، اور مجرموں کو ان کے جرم کی سزا دی جاتی ہے ، لیکن جب عدالتیں حکومتوں کا پہیہ بن جائیں اور ظالم حکمرانوں کی حمایت اور ان کے دباو میں دن کو رات اور رات کو دن کہنے لگیں تو ایسے ملک میں بسنے والے انسانوں کے لئے صرف دو راستہ باقی بچتے ہیں ، یا تو عزت سے موت کو گلے لگایا جائے ، یا ذلیل جانوروں کی غلامانہ زندگی بسر کی جائے ، اس کے علاوہ تیسرا کوئی بھی راستہ نہیں ۔
شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ مشورہ پر اگر غور کیا جائے ، جس میں عدالت نے اس مسئلہ کو چار ہفتہ کے لئے ملتوی کرتے ہوئے حکومت کو مزید ثبوت جمع کرنے کی بات کہی ہے ، اس مشورہ کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ عوام کو مزید پریشان کیا جائے ، ہو سکتا ہے وہ تھک ہار کر مظاہرات کا سلسلہ بند کردیں ، اور سانپ بھی مر جائے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کا قصہ عمل میں آجائے ، لیکن حکومت اور عدالت جو اس وقت سگے بھائی معلوم ہوتے ہیں ، ان کو یہ بالکل بھی نہ بھولنا چاہئے کہ اس ناپاک تدبیر اور ناجائز فیصلوں اور مشوروں کے سہارے عوام کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا ، ہمیں معلوم ہے کہ یہ آوازیں حکومت کی نیند اڑا چکی ہیں ، اور برسر اقتدار ہونے کے باوجود انہیں اپنے ہی پاس کئے ہوئے قانون کی حمایت میں ریلیاں نکالنی پڑیں ، پریس کانفرنس کرنے پڑے اور حد تو یہ ہے کہ مسڈ کال مشن چلانا پڑا جس کے لئے ہر غیر مناسب طریقہ کار کو اپنانے کی کوشش کی گئی ، یہ سب حکومت کی ناکامی کی نشانی اور اس کے زوال کی کہانی ہے ۔
اس موقع پر یہ بات کہنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ عدالت اگر اپنے علو مرتبت کے سبب گھمنڈ میں مبتلا ہے اور اسے یہ احساس ہو چلا ہے کہ اس کا نافذ کیا گیا فیصلہ خواہ کیسا بھی ہو قابل قبول ہوگا ، اور عوام اس کا خیر مقدم کرے گی ، چونکہ عدالت کے خلاف آواز اٹھانا توہین عدالت کہلائے گا اور اس کے مرتکب کو سزا دی جائے گی ، تو عدالت کو اس مزعومہ سے باہر آجانا چاہئے ، اور یہ کبھی بھی نہ بھولنا چایئے کہ عدالت سے بڑی طاقت منصف عوام کی ہوتی ہے ، عوام کی عدالت سے بڑی کوئی عدالت نہیں ہوا کرتی ، اس لئے عدالت کو اپنے وقار کا لحاظ کرتے ہوئے ا س قانون کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کرنا چاہئے ، اور ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے ، ورنہ اگر ایسا نہیں ہوا تو ملک کو مقتل بننے سے کوئی نہیں روک سکتا اور پھر سب کا وقار سرخ لہو سے مجروح ہو کر رہے گا ۔