ضلع بیدر سے

ڈاکٹرعابدمعز کی علمی اورادبی خدمات پر سیمینار، پروفیسر فاطمہ بیگم پروین، ڈاکٹروِدیاپاٹل، اور دیگر کاخطاب

اردوکو ایک طبقہ تک محدودکرنا سازش، درسِ انسانیت دیکھنا ہوتوڈاکٹر عابد معز کی کتابیں پڑھیں

بیدر: 19/جنوری (وائی آر) اردو سنسکرت سے وجود میں آئی ہے۔ کھڑی بولی اس کاماخذ ہے۔ پہلے پہل 80%الفاظ سنسکرت ہی کے استعمال ہوتے تھے۔ رفتہ رفتہ سیاست اور سماج کے ایسے عناصر جواردو کی خوبصورتی سے نفرت کرتے تھے انھوں نے اس زبان کو ایک طبقہ تک محدود کردیا۔ یہ باتیں حیدرآباد فرخندہ بنیاد سے تشریف لائیں پروفیسر فاطمہ بیگم پروین نے کہیں۔ وہ ہفتہ کو گورنمنٹ فرسٹ گریڈ وومنس ڈگری کالج، موقوعہ جنواڑہ روڈبیدر کے شعبہ ئ اردو کی جانب سے منعقدہ سیمینار بعنوان ”ڈاکٹر عابد معزکی علمی اور ادبی خدمات“ پر بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کررہی تھیں۔

انھوں نے مزید کہاکہ عموماًطنزومزاح نگار خود کو ایک مثال بناکر پیش کرتاہے۔اور تحریک دیتاہے۔ مزاح نگار معاشرے کو خامیوں سے پاک دیکھنا چاہتاہے۔ جس میں ڈاکٹر عابد معزجیسے طنزومزاح نگار بھی شامل ہیں۔ ان کے فکاہیہ، شگفتہ افسانے، مضامین اور انشائیوں میں یہیں چیز جھلکتی نظر آتی ہے۔ اور یہ چیزیں خاندان کی طرف سے تربیت اور عطیہ ہوتی ہیں۔درسِ انسانیت دیکھنا ہوتو عابد معز کی تحریریں پڑھیں۔ یہاں طالبات نے اپنے اپنے مضامین کے ذریعہ عابد معز کی 34کتابوں کاتذکرہ کیا۔ ان طالبات کے مضامین دیکھ کر کہناچاہتی ہوں کہ آج اردو اتنی خوشحال، توانا، تندرست اور باصلاحیت ہے کہ نئی نسل اس قسم
کے مضامین لکھ سکتی ہے جیساکہ آج ان طالبات نے پیش کیا۔

پروفیسر فاطمہ بیگم پروین صاحبہ نے اردو زبان کواپنے ہی گھر میں بیگانہ بنادئے جانے کی شکایت کی اور کہاکہ اردو کا کوئی صوبہ نہیں ہے، سرکاری امداد نہ ہونے کے باوجود بھی اس زبان میں اتنا دم ہے کہ وہ پارلیمنٹ، تجارت (اشتہارات کے ذریعہ)، فلم اور بازاروں میں بولی، سمجھی اور اپنے جذبوں کے اظہار کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔اس سیمینار کاانعقاد کرنے والے ڈاکٹر ماجد میاں، ڈاکٹر شمس الدین اور ڈاکٹرعطیہ جیسے لیکچررس اور اس سیمینار کواسپانسر کرنے والی محترمہ شمس النساء بیگم لائق صدتحسین ہیں۔یہ بات ہم سب کے لئے اہم ہے کہ تیکھا، خوشگوار، مسکراتا اور جھنجھلاتا ہوا عابد معز کا قلم آج بھی رواں دواں ہے۔

صدر جلسہ ڈاکٹرراجپا بکچاؤڈی پرنسپل گورنمنٹ فرسٹ گریڈ ڈگری کالج بید رنے اپنے صدارتی خطاب میں بتایاکہ زبانیں صرف رابطہ کے لئے ہوتی ہیں اور ہمار املک کئی زبانوں کی آماجگاہ ہے۔ ڈاکٹر عابد معز کے بارے میں سیمینار سن کر اچھا لگا اور پتہ چلاکہ موصوف کاکام ایک سائنٹفک ڈیولپمنٹ ہے۔ اوراس طرح کاکام ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ نومولو اور کم عمر بچے جس طرح تجسس کے ساتھ کسی چیز کو دیکھتے اور اس پر دھیان دیتے ہیں ایسے ہی آج کے سیمینار میں میں نے دیکھاکہ ہماری طالبات نے دوسری طرف دھیان دئے بغیر اس سیمینار کو سنا، یہ عمل خود ایک بڑا عمل ہے۔

ڈاکٹر عابد معز صاحب (حیدرآباد) کو اس سیمینار میں اس لئے بھی زحمت دی گئی تھی تاکہ طالبات ان کادیدار کرسکیں اوروہ طالبات کے سوالات کے جوابات بھی دے سکیں۔ ایک طالبہ نے سوال کیاکہ میں وہ کام کرناچاہتی ہوں جو آج تک کسی نے نہیں کیا۔ جس کاجواب ڈاکٹر عابد معز نے بخوبی اور بخوشی دیتے ہوئے کہاکہ لڑکیاں بہت پڑھ رہی ہیں اور لڑکے اس طرح نہیں پڑھ رہے ہیں۔ جس سے معاشرتی عدم توازن پید اہواہے۔اور اسی کے سبب شاید لڑکیاں سڑکوں پر محفوظ نہیں ہیں۔ سوشیالوجسٹ حضرات کو اس کے تدارک کے لئے بھی مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا۔ تاہم میں یہی کہوں گاکہ آپ جو چاہیں بنیں لیکن سب سے پہلے انسان بننے کو ترجیح دیں۔

اس کے علاوہ انھوں نے اپنے خطاب میں کہاکہ میں اپنے پیشہئ طب کو چھوڑ کر اردو میں تحریریں لکھنا شروع کرچکاہوں۔طالبات یہ کہنے میں عار یاشرم محسوس نہ کریں کہ آپ کی مادری زبان اردو ہے۔ اس زبان میں مہارت حاصل کریں۔ زبان کی بدولت نوکری نہیں ملتی۔ نوکری اپنی نالج، اور اپنے Skillکی بدولت ملتی ہے۔ لوگ اپنی قابلیت اور صلاحیت کے بل بوتے پر کماتے ہیں۔

ڈاکٹرودیا پاٹل لیکچرر نے اپنے عمدہ ترین لیکچرر میں کہاکہ زبانیں جو چاہیں سیکھیں لیکن اس کااستعمال درست طریقے سے ہونا چاہیے۔ ہماری زبان سے ہمارے کلچر کا پتہ چلتاہے۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ بیدر میں کئی ایک زبانوں کاسنگم ملتاہے۔ یہاں مراٹھی، تیلگو، کنڑا، اردواور ہندی کامکسچر ملتاہے۔ اس علاقے میں اردو ایک اہم زبان ہے۔ اور لوگوں کی زندگی کاحصہ ہے۔ میری اپنی رائے ہے کہ اردو ایک انتہائی خوبصورت اور مٹھاس رکھنے والی زبان ہے۔ ہر جذبہ، موقع اور وچار کے لئے کئی کئی الفاظ اردو میں ملتے ہیں۔ محترمہ نے ڈاکٹر عابد معز کے بارے میں بتایاکہ سائنس کے طلبہ کو ادب سے جوڑنا مشکل ہوتاہے لیکن یہ کام ڈاکٹر عابد معز نے اپنے ادبی اور سائنسی مضامین سے کیاہے۔ عابد معزایک شش جہات مصنف ہیں۔ انہیں دیکھ کر تعجب اور مسرت دونوں ہوتے ہیں۔ اگر ان کی انگریزی کتابیں ہوں تو میں ضرور پڑھنا پسند کروں گی۔

سیمینار کا آغاز طالبات نصر ت بیگم اور سمیرہ بیگم کی تلاوت کلام پاک اور اردو /کنڑا ترجمے سے ہوا۔ ڈاکٹر ماجد میاں لیکچررگورنمنٹ فرسٹ گریڈ وومنس ڈگری کالج نے استقبالیہ کلمات کہے۔ طالبہ عرشیہ بیگم نے”ڈاکٹر عابد معز کی تصانیف“عنوان پر اپنامقالہ پیش کیا۔ طالبہ اقصی فاطمہ نے ”ڈاکٹرعابدمعز۔ بحیثیت طنزومزاح نگار“ مقالہ پیش کیا۔اور محفل زعفرانِ زار ہوگئی۔ طالبہ نازنین بیگم نے ”عابدمعز۔ شگفتہ افسانہ نگار“ عنوان پرخامہ فرسائی(تحریری) کی۔طالبہ نیہاں بیگم نے ”ڈاکٹر عابدمعز کی کالم نگاری“ عنوان پر لکھا اور بہتر طورپر پیش کیا۔ طالبہ سلطانہ بیگم نے ڈاکٹر سید خواجہ عابدمعز بحیثیت MBBSڈاکٹر“ عنوان پر مضمون پیش کیا۔ اور شہاب الدین بیدری قریشی کی ایک مثنوی کو اردو زبان کی پہلی طبی کتاب بتایا کیونکہ اس مثنوی کاایک حصہ جنسیات اور طب پر مشتمل ہے۔ ایک اور طالبہ نے عابدمعز کی تحریروں کے طنزومزاح کو پیش کیا۔ ممتاز شاعروادیب اور صحافی جناب محمدیوسف رحیم بیدری نے طالبات کے مضامین اور مقالوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں بطور رہنمائی چند ایک نصیحتیں بھی کیں۔

اس موقع پر طالبات کو توصیفی سند سے نوازاگیا۔ طالبات نے بھی اپنے لیکچررس اور مہمانوں،خصوصاً ڈاکٹرعابدمعز کی بے شمار گلپوشیوں کے ذریعہ ان سے اپنی عقیدت کا اظہارکیا۔ محترمہ شمس النساء بیگم اور لیکچرر سرینواس ریڈی نے بھی خطاب کیا۔ تمام مہمانوں کی شالپوشی اور گلپوشی کی گئی۔ اسی طرح بیدر کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے قلمکار وں اور صحافیوں کی بھی گلپوشی کی گئی جن میں رخسانہ نازنین، امیرالدین امیر، گندھروا سینا، اختررحمن، نازحمیدالدین احمد، محترمہ ارم فاطمہ وغیرہ شامل ہیں۔ایک خاص بات یہ دیکھی گئی جس کاذکر مہمانوں نے بھی کیاکہ تدریسی اور غیر تدریسی اسٹاف کے ساتھ ساتھ Dدرجہ کے ملازمین کی بھی گلپوشی کرتے ہوئے ان کااعتراف کیاگیا۔ ایسا کہیں دیکھنے کونہیں ملتا۔

محترمہ ارم فاطمہ نے اپنی والدہ قریشیہ نکہت مرحومہ اوراپنے برادر کلاں ڈاکٹر انجم شکیل کی کتابیں اور رخسانہ نازنین نے اپنی تصنیف حیدرآباد سے تشریف لائے مہمانان پروفیسر فاطمہ بیگم پروین اور ڈاکٹر عابد معز کو پیش کیں۔مہمانان نے ان کتابوں کوخوشی خوشی حاصل کیا۔مقالہ پڑھ چکیں طالبات کو محمدیوسف رحیم بیدر نے اپنی کتابیں تحفتاً پیش کیں۔طالبات نورصبا اورصبا بیگم نے عمدہ طریقے سے نظامت کی سعی کی۔ اورطالبہ اقصی فاطمہ کے اظہار تشکر پر سیمینار اپنے اختتام کوپہنچا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!