سماجیسیاسیمضامین

سیکولر عوام کے اتحاد کو سلام، جس نے حکومت کی نیندیں حرام کردیا

ذوالقرنین احمد

ملک میں دوسری مرتبہ مرکزی اقتدار پر بی جے پی کے قابض ہونے کے بعد مودی حکومت اپنے برسوں پرانے ناجائز عزائم کو پورا کرنے کیلئے سرگرم ہوچکی ہے۔ 2014 میں جیت حاصل حاصل کرنے کے بعد حکومت نے منصوبہ بند طریقے سے اور بڑی چالاکی سے ایسے قانون پاس کیے جس کو عوام الناس قبول کرنے کے حق میں بلکل نہیں تھیں۔ حکومت نے اپنے رویہ میں کچھ وقت کیلے اس لیے نرمی اختیار کی جب 2019 کا انتخاب قریب تھا۔ اور یہ ان کیلے بے حد ضروری تھا کہ 2019 میں کسی‌بھی طرح سے اقتدار حاصل کیا جائے تاکہ جو آئیندہ کے ٹارگیٹ ہیں اسے پورا کیا جا سکے۔ ماب لنچنگ کے زریعے ڈر و خوف کا ماحول پیدا کیا گیا، ایک طرف عوام کو معاشی طور پر کمزور کردیا گیا، نوجوانوں کو بے روزگار کردیا گیا۔ اور پچھلے پانچ سالوں میں ملک کے سسٹم پر اور اہم عہدوں پر سنگھی نظریات کے حامل افراد کو فائض کر دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کو اپنے کنٹرول میں لیا گیا۔ ای وی ایم کا بائیکاٹ جس شدت سے اپوزیشن نے کرنا چاہیے تھا وہاں اپوزیشن بھی نرم ہندوتوا کی حامی بھارتی دیکھائی دی۔

ایسے قانون آرڈیننس اور اپنی اکثریت کے بل بوتے پر پاس کرائیں گئے کہ عوام اپنے حق کیلے آواز اٹھانے کی کوشش اس وقت اگر کریں یا غلط قانون کے خلاف کچھ بولنے کی جرات کریں تو انہیں دیش دروھی کے الزامات میں پھنسانے کی کوشش کی گئی، حق اور انصاف کی بات کرنے والوں اور ایسے انصاف پسند فلاحی تنظیموں کو پابند کردیا گیا کہ وہ حکومت کے فیصلے کے خلاف چوں چراں بھی نا کرسکے۔ پلوامہ میں انتخابات سےقبل منصوبہ بند طریقے سے حملہ کیا گیا اور پھر پلٹ وار میں جھوٹی رپورٹ میں یہ بتایا کیا گیا کہ اتنے افراد کو ہلاک کردیا گیا۔ جبکہ کچھ درختوں کہ علاوہ کوئی نقصان مخالف کو پہنچا نہیں سکے۔ میڈیا کو خرید کر حکومت کے خلاف بولنے پر پابندی لگا دی گئی۔ ملک کی معیشت کو نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے کمزور کردیا گیا۔ متوسط طبقے کے سرمایا داروں اور عام عوام کو جس کا سب سے زیادہ نقصان ہوا۔
کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کردیا گیا۔ وہاں کی عوام کو گھروں میں محصور کر دیا گیا۔ انٹرنیٹ سروس کو ابتک بحال نہیں کیا گیا۔ اور اس معاملے میں آواز اٹھانے والوں کو ملک سے غداری کا الزام لگایا گیا۔ بابری مسجد کے فیصلہ کو نام نہاد اکثریت کے نام پر یکطرفہ فیصلہ سنایا گیا ثبوتوں کو سامنے رکھنے کے باوجود نظر انداز کیا گیا۔ آئین و دستور اور ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے تشخص کو مجروح کیا گیا۔ جس کی ہر انصاف پسند ہندوستانی نے مذمت کی۔

ان تمام مدعوں میں عوام کو الجھا کر رکھا گیا۔ اور جب عوام نے اصل مدعو کی طرف حکومت کو توجہ دلانی شروع کی تو حکومت نے پھر سے ایک ایسے قانون کو پاس کیا جس میں ملک کی عوام کی شہریت کو مشکوک قرار دے دیا گیا ہے۔ اور ملک کے جمہوری نظام حکومت کے خلاف مذہب کی بنیاد پر قانون سازی کی گئی۔ شہریت ترمیمی قانون کو لاکر اور اسی طرح این پی آر جیسے قانون کو پاس کیا گیا۔ جس میں عوام سے اپنی شہریت نافظ کرنے کیلے دستاویزات درکار ہوگے۔ جو این آر سی کی طرف پہلا قدم ہے۔

اور جب ملک کی عوام مختلف مذاہب اور ذاتوں برادریوں پر شہریت ثابت کرنے کا فیصلہ سروں پر منڈلانے لگا تو ان تمام نے اس کالے قانون کے خلاف احتجاج شروع کردیا۔ جو احتجاج حکومت کے خلاف شدت اختیار کر چکا ہے۔ ملک کی اکثریت موجودہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر بلا مذہبی تفریق کے اتر چکی ہے۔ جو سنگھی فرقہ پرست ہندؤ راشٹر کے خوب کو لے کر آگے بڑھ رہے تھے اب انہیں یہ خواب صرف ایک سراب دیکھائی دے رہا ہے۔ کیونکہ یہ فرقہ پرست یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں اکثریت ان سنگھیوں کی ہے لیکن اب ان کے ہوش اڑ چکے ہیں۔ تمام ہندو مسلم سکھ عیسائی اور دیگر ایس ٹی ، ایس سی ، این ٹی، وغیرہ سب مل کر حکومت کے خلاف ہوچکے ہیں۔ دھیرے دھیرے ایک ایک ریاست سے بی جے پی کا خاتمہ ہوتا جارہا ہے۔ ان کے ہی امیدوار بغاوت پر اتر چکے ہیں۔

اصل میں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اکثریت میں ہے، وہ اس وجہ سے ایسے سمجھتے ہیں کہ جو دیگر پسماندہ طبقات ہے او بی سی اور اسکے علاوہ ذاتیں ہیں انہیں بھی یہ اپنے فرقے کا سمجھتے ہیں۔ جبکہ وہ لوگ خود ایک الگ کاسٹ اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ چیخ چیخ کر کہ رہے ہیں کہ ہم ہندو دھرم سے نہیں ہے۔ اور اب یہ تمام کمیونٹی کے افراد کو اپنا ہونے کا احساس ہوچکا ہے۔ جب شہریت ثابت کرنے کی بات آئی ہے ان سبھی کے 14 طبق روشن ہوچکے ہیں کہ حکومت صرف ایک فرقہ کا راج ملک میں لانا چاہتی ہے۔ اور پھر سے انگریزوں کی غلامی کی طرح غریب پسماندہ طبقات کے افراد کو دوسرے درجے کا شہری و غلام بنانا چاہتی ہے۔ اور اسی وجہ سے اب پورا ملک سراپا احتجاج بن کر حکومت کے خلاف کھڑا ہو چکا ہے۔ جو حکومت کے ناجائز عزائم کو جان چکا ہے۔ اور اپنے ملک کے آئین کی حفاظت کیلے سڑکوں پر اتر چکا ہے۔

حکومت اصل مسائل کو نظر انداز کر کے عوام کو بے وقوف بنا رہی تھیں۔ لیکن اب یہی عوام حکومت کو آئینہ دیکھا رہی ہیں۔ ملک کا بچہ بچہ خواتین، نوجوان بوڑھے سب کے سب حکومت کے خلاف ہوچکے ہیں۔ کہ ہمیں شہریت کے کالے قانون کی ضرورت نہیں ہے، ملک ڈوب رہا ہے، ملک کی معیشت بدترین دور سے گزر رہی ہیں۔ بے روزگاری عروج پر ہے۔ مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ ملک کی بیٹی کی عصمتیں قانون کے رکھوالے تار تار کر رہے ہیں۔ اقتدار میں بیٹھے حکمران جماعت معصوم بچیوں کی عزتوں سے کھیل رہے ہیں۔ بچے بھوک سے مر رہے ہیں تو کہی ادویات کی کمی سے اموات ہورہی ہے۔ ملک کی بیٹیاں آشرموں میں بھی محفوظ نہیں ہے۔ اور حکومت “بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ” کا نعرہ بھی دیتے ہیں۔ جو صحیح بھی ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ جو ہمارے لیڈران ہے یہ شہوت کے بھوکے کتوں کی طرح ہے‌۔ جس کا نظارہ روزانہ اخبارات میں دیکھنے ملتا ہے۔

اب حکومت کو یہ خوف ستا رہا ہے کہ ان احتجاج کردہ عوام کو جس میں یونیورسٹیوں، کالجوں کے طلباء سر فہرست ہے۔ جو پہلی صفوں میں کھڑے ہوئے ہیں۔ اور اپنے حقوق کے تحفظ کیلے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی بقا کیلے سڑکوں پر اتر چکے ہیں۔ اور وہ گولیاں ، لاٹھیاں ، چلنے کے باوجود محاذوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ کیونکہ ملک کی عوام کیلے سب سے پہلے ملک کا تحفظ ضروری ہے۔ انصاف و یکساں حقوق پر مبنی قوانین کا تحفظ ضروری ہے۔ اور اسی جمہوریت کو یہ فرقہ پرست حکومت اپنے پروپیگنڈے کے تحت مسمار کرنا چاہتی ہے۔ اور ہندو راشٹر کے قیام کیلے کوشاں ہے۔ ملک بھر میں جاری احتجاج کو روکنے اور کمزور کرنے کیلے مختلف سازشیں حکومت انجام دی چکی ہیں‌۔ اور دے رہی ہے، وہ چاہتے ہے۔ کسی طرح اس احتجاج کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر کمزور کردیا جائے۔ لیکن عوام اب بلا مذہبی تفریق کے متحد ہو کر انصاف کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ وہ ان فرقہ پرستوں کی چالوں کو سمجھ چکی ہے۔

اسی ڈر و خوف کے وجہ سے اب حکومت نے ملک کے تمام دفاعی نظام کو اپنے ہاتھوں میں لینے کیلے اور اپنے کنٹرول میں رکھنے کیلے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے۔ جو آزادی کے بعد سے ابتک کسی حکومت نے نہیں اٹھایا تھا۔ حکومت کو یہ ڈر اور فکر لاحق ہوچکی ہے کہ اگر فوج اس معاملے میں مداخلت کرتی ہیں تو یہاں پر خانہ جنگی شروع ہوجائیں گی۔ اور ملک کی کمان فوج کے ہاتھوں میں آسکتی ہیں۔ جیسے پڑوسی ملک میں ہوا تھا۔ جسے ڈکٹیٹر شپ کا جاتا ہے۔ جس میں حکومت کا تختہ پلٹ کر اپنی ڈکٹیٹر شپ قائم کرلی جاتی ہے۔ اسی ڈر و خوف کے وجہ سے تینوں دفاعی نظام کی فوج کو کنٹرول میں رکھنے اور اپنے ہاتھ میں رکھنے کیلے رٹائرڈ جنرل بپن راوت کو کمانڈر ان چیف بنایا گیا ہے۔ جس مین بحری ، بری، اور ہوائی، فوجوں کو انکے زیر نگرانی میں کام کرنے کیلے پابند کردیا گیا ہے۔ سی ڈی ایس کی تقرری پر کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ کمانڈر ان چیف خود چار ستارہ جنرل ہے تو دیگر محاذوں کے چار ستارہ جنرل کیسے اس کے تابع ہوگے۔ اور اس میں عہدوں کو لیکر اور اختیارات کو لیکر آپسی اختلافات شروع ہوجائیں گے۔ اس بات کا بھی اندیشہ لاحق ہورہا ہے کہ فوج کا استعمال حکومت اپنے ناجائز عزائم کو پورا کرنے کیلے کر سکتی ہے۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے 80 سے 85 فیصد سے بھی زائد عوام آئین و ملک کی حفاظت کیلے کھڑی ہوئی ہے۔ اب ضرورت اس بات کے ہے کہ آپسی اختلافات رنجشوں کو بھلا کر متحدہ طور پر حقوق کی لڑائی کو جاری رکھا جائے۔ اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے والوں سے محفوظ رکھا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!