ظلم پھر ظلم ہے، اس کو مہلت نہ دو
ساجد محمود شیخ، میراروڈ
مکرمی!
غیر آئینی و غیر انسانی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پورے ملک بھر پُر امن احتجاجی مظاہرے جاری ہیں ۔ اِن مظاہروں کا موجودہ حکومت پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے بلکہ حکومت اور سنگھ پریوار کے لوگ انصاف پسند عوام کی آواز نظر انداز کرکے ظُلم وتشدد کے ذریعے انہیں خاموش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ کڑ کڑاتی سردی میں جے این یو دہلی کے طلباء اور اساتذہ پر ہونے والا حملہ اِس بات کی علامت ہے کہ حکومت ہر طرح کے اختلافِ رائے کو دبانے کے لئے تمام حدود کو پار کرنے پر آمادہ ہے ۔ حکمرانوں کے ذریعے خوفناک ظُلم وتشدد افسوسناک بھی ہے اور ناقابلِ قبول بھی ہے ۔ انصاف پسند عوام کو چاہیئے کہ وہ اِس نا انصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور پوری طاقت کے ساتھ اِس کے خلاف آواز بلند کریں ۔ یہ لڑائی ہر طرح کے استحصال اور ناانصافی کے خاتمے کے لئے ہونے والی جنگ ہے ۔ اگر ہم حوصلہ ہار گئے تو یہ ملک پوری طرح سے فاششٹ طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن جائے گا اور اور جمہوری اقدار اور انسانی ہمدردی کے جذبات پوری طرح دم توڑ دیں گے ۔ ریٹائرڈ جسٹس کولسے پاٹل نے جماعتِ اسلامی ممبئی کی جانب سے مراٹھی پتر کار سنگھ میں منعقدہ پروگرام میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یا تو لڑ کر مرو یا پھر سڑ کے مرو ۔ اِس موقع پر ٹیپو سلطان کا قول یاد کرنے کی ضرورت ہے،انگریزوں سے مقابلہ کرتے وقت انہوں نے کہا تھا کہ شیر کی ایک روزہ زندگی گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے بہتر ہے ۔ آج اگر ہم ناانصافی پر خاموشی اختیار کی اور گھروں میں بیٹھ گئے تو ہمارا مستقبل محفوط نہیں رہے گا اور دوسرے درجے کے شہری بنادیے جائیں گے ۔ہمیں چاہیے کہ اِس تحریک کو کمزور پڑنے نہ دیں اور حصولِ ہدف تک پیہم کوششیں کرتے رہیں۔