بلندشہرکے خوفزدہ مسلمانوں نے انتظامیہ کو 6 لاکھ روپے کا ہرجانہ ادا کیا
معروف صحافی گارگی راوت نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا، ’’اس میں سے کسی پر بھی مقدمہ نہیں چلا، اس کے باوجود ریاستی حکومت نے جرمانہ عائد کیا اور مسلم طبقہ کو اسے ادا کرنے پر مجبور کیا گیا‘‘
بلندشہر: بلند شہر کے کچھ مسلمانوں نے انتظامیہ کو سی اے اے، این آر سی مخالف مظاہروں کے دوران ہونے والے عوامی املاک کے نقصان کے لئے ہرجانہ کے طور پر تقریباً سوا چھ لاکھ روپے ادا کئے ہیں۔ مسلمانوں نے احتجاجی مظاہرے کے دوران پھوٹ پڑنے والے تشدد میں سرکاری املاک کے نقصان کے عوض میں ضلع انتظامیہ کو 6 لاکھ 27 ہزار روپئے کا ڈیمانڈ ڈرافٹ سونپا ہے۔ کچھ میڈیا رپورٹوں اور پولیس کے مطابق بلند شہر کے مسلمانوں نے ’انوکھی مثال‘ قائم کی ہے۔ یعنی یوگی آدتیہ ناتھ کے بدلہ لینے کے بیان پر خود مسلمانوں نے مہر لگا دی ہے۔ گویا کہ مسلمانوں نے اعتراف کر لیا ہے کہ انہوں نے پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچایا ہے۔
حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ انتظامیہ نے بھی اس رقم کو قبول کر لیا ہے اور دونوں فریق میں سے کسی کو بھی عدلیہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ کیا اب پولیس والے بھی اعتراف کریں گے کہ انہوں نے مظاہرین پر بے دریغ گولیاں چلائی ہیں؟ بغیر مقدمہ کے انتظامیہ کا کسی شخص کو فسادی قرار دینا اور کچھ لوگوں کے ذریعہ ہرجانہ کی رقم سونپ دینا کئی سوالوں کو جنم دے رہا ہے۔ سوال اٹھ رہے ہیں کہ آیا بلند شہر کے مسلمان خوف میں ہیں یا پھر انہوں اعتراف جرم کر لیا ہے!
خیال رہے کہ عوامی احتجاج کے دوران ہونے والے تشدد کے فوراً بعد وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے متنازع بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ تشدد میں ملوث افراد سے ’’بدلہ لیا جائے گا۔‘‘ انہوں نے کہا تھا کہ سرکاری و پرائیویٹ پراپرٹی کے نقصانات کی تلافی اس میں ملوث افراد کی املاک سے کی جائے گی اور حکومت کے اس اعلان کے بعد ریاست بھر میں ضلع انتظامیہ نے مختلف افراد کے نام سے نوٹس جاری کرنے بھی شروع کر دیئے ہیں۔ ابھی تک تقریباً 530 سے زیادہ افراد کے خلاف نوٹس جاری کیے جاچکے ہیں۔
نوٹس جاری ہونے کے بعد، مقامی مسلم کونسلرز نے نوٹس نہ بھجوانے کی التجا کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ خود اس نقصان کا ازالہ کریں گے۔ جمعہ کے روز نماز کے بعد شہر کوتوالی پہنچنے والے کونسلر اکرم غازی نے اس نقصان کے ازالہ کے طور پر ڈی ایم رویندر کمار اور ایس ایس پی سنتوش کمار سنگھ کو 6 لاکھ 27 ہزار 507 روپے کا ڈیمانڈ ڈرافٹ سونپ دیا۔ اس موقع پر انہوں نے ضلع اور پولیس انتظامیہ کے افسران اور پولیس جوانوں کو گلاب کے پھول دے کر نظم ونسق کی جلد بحالی کے لئے مبارک باد دی۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 20 دسمبر کو جمعہ کی نماز کے بعد شہریت (ترمیمی) قانون کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرے نے اچانک تشدد کی شکل اختیار کرلی تھی اور شرپسند عناصر نے مظاہرے کے دوران توڑ پھوڑ کےساتھ آگزنی بھی کی تھی۔ بلند شہر ضلع انتظامیہ نے سرکاری املاک کے نقصانات کا تخمینہ 6 لاکھ 27 ہزار 500 روپئے لگایا تھا۔ تشدد میں پولیس کی ایک جیپ بھی جل گئی تھی۔ ضلع اور پولیس انتظامیہ نے مسلم دانشوروں کے اس قدم کو سراہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع میں امن وامان برقرار رہنا چاہیے۔
اسے ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں میں موجودہ حکومت اور جابر انتظامیہ کا خوف کہیں یا اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی دھمکی کا اثر کہ انہوں نے خود ہی ایک فنڈ جمع کیا اور ہرجانے کی رقم پولیس کو سونپ دی۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے جس انداز میں مظاہرین سے ’بدلہ لینے‘ کی دھمکی دی تھی اس کی ہر ذی شعور شخص کی جانب سے مذمت کی گئی۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس مرکنڈے کاٹجو نے تو یوگی حکومت کی اس کارروائی کو فسطائیت کی یاد دلا دینے والا اقدام قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بغیر کسی مقدمہ کے کسی بھی فساد کے قصورواروں سے کوئی ہرجانہ وصول نہیں کیا جا سکتا۔
ادھر، معروف صحافی گارگی راوت نے اس پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے، ’’اس میں سے کسی پر بھی مقدمہ نہیں چلا، اس کے باوجود ریاستی حکومت نے جرمانہ عائد کیا اور مسلم طبقہ کو اسے ادا کرنے پر مجبور کیا گیا۔ کیا یہ قانوناً صحیح ہے؟ کیا وہ بلندشہر کے سیانہ میں ہونے والے تشدد کا ہرجانہ بھی لوگوں سے وصول کریں گے، جہاں بجرنگ دل کی طرف سے پولیس کی گاڑیوں کو پھونک دیا گیا تھا؟‘‘
سوال یہ بھی ہے کہ بلند شہر کے جن مسلمانوں نے انتظامیہ کو ہرجانہ ادا کیا ہے کیا وہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ تشدد انہوں نے ہی برپا کیا اور عوامی املاک کو ہونے والے تمام نقصانات کے ذمہ دار وہی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ان ویڈیوز کا کیا جو متعدد شہروں سے سامنے آ رہے ہیں اور ان میں پولیس اہلکار عوامی پراپرٹی کو نقصان پہنچا رہے ہیں! سوال یہ بھی ہے کہ بلندشہر کے یہ لوگ تو 6 لاکھ سے زیادہ کا ہرجانہ دینے کی استطاعت رکھتے تھے لیکن ملک بھر کے جن غریب اور بے قصور مسلمانوں کو نوٹس بھیجا گیا ہے وہ کہاں سے اتنے روپے لے کر آئیں گے!