ضلع بیدر سے

بسواکلیان: آٹو نگر میں جلسہ عید میلادالنبی ﷺ سے مولانا نصیرالدین کا خطاب

بسواکلیان: 2/ڈسمبر(کے ایس) ماہ ربیع الاول کی آمد کے موقع سے رسول اکرمﷺ سے محبت کا اظہار یوں تو عام طور پرمحسوس کیا جاتا ہے‘ لیکن ساتھ ہی اس دوران منعقد ہونے والی مختلف سرگرمیاں سوچنے پر آمادہ کرتی ہیں کہ فی الوقعی محبت رسولﷺ سے متعلق ہماری موجودہ صورت حال کا کیا عالم ہے؟ اس موقع سے بعض پہلوؤں سے جائزہ مفید ہوگا۔جائزہ یہ معلوم کرنے کے لئے کہ یہ اظہار محبت‘کس حدتک ایمان بالرسولﷺ اور اس کے تقاضوں کے دائرہ میں شمار کی جاسکتی ہے؟ اور وہ کس حد تک ان طریقوں سے مطابقت رکھتی ہے جن کے ذریعہ ہمارے اسلاف اور بزرگان دین نے آپؐ سے محبت کا اظہار فرمایا تھا؟ یہ خود احتسابی کا عمل اس لئے ضروری ہے کہ اللہ کے رسولﷺ پر ایمان اپنی کیفیات اور اثرات کے لحاظ سے بخوبی معلوم کیا جاسکتاہے۔احتساب کے لئے تین پہلو بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔

پہلا یہ کہ کس حد تک ہماری خواہشات اور جذبات‘ رسول اللہﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے تابع ہیں؟دراصل یہی وہ معیار ہے جس کو آپﷺ نے ایمان کی کسوٹی قرار دیا۔ اسی کسوٹی میں وہ محبت بھی شامل ہے‘ جو اللہ سے شدید محبت کے حوالے سے رسالت مآبﷺ سے بھی ہوتی ہے۔ یعنی محبت رسولﷺ کا اظہار‘ اتباع شریعت ہی سے ہونا چاہئے۔اگر معاملہ ایسا نہ ہو توسرے سے ایمان ہی معتبر نہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے حضرات صحابہ کرامؓ ٹوٹ کر محبت فرمایا کرتے تھے۔ یہ محبت ان کے پختہ ایمان اور قول و عمل کی یکسانیت میں ڈھل گئی تھی۔ ان کا برجستہ اور برملا کہنا فداہ امی وابی(میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان) اسی محبت کے عملی تقاضوں کی تکمیل کا نقطہ عروج تھا۔یعنی حضرات صحابہ کرامؓ نے آپؐ کی محبت کو‘قرآن سنت پر عمل کا اہم ترین تقاضہ اور ذریعہ سمجھ لیا تھا۔چنانچہ ان برگزیدہ ہستیوں نے صرف بروقت عمل صالح انجام دینے کا التزام نہیں فرمایا بلکہ ان کے عمل میں استقلال اور مسابقت بھی نمایاں تھی‘جبکہ تاخیر اور سستی وکاہلی کا کوئی عمل دخل ہی نہیں تھا۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ سے ان کی محبت اور اسکے مطابق سنتوں پر عمل سے عقیدت مندانہ جذبات نقطہ عروج پر پہنچے تھے جو ان کی زبانوں سے فداہ امی وابی کے الفاظ سے ظاہر ہوتے تھے۔

ان خیالات کا اظہار مو لانا نصیر الدین امام و خظیب مسجد ابراہیم بسواکلیان نے آٹو نگر میں جلسہ عید میلادالنبی ﷺ میں خطا ب کرتے ہو ئےکیا۔اس جلسہ کی نظامت مظہر نوار نے کی۔ مولانا سلیم الدین خطیب وامام مسجد خا لد بن ولید نےمخا طب کرتے ہوئے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ رسول اللہ کی زندگی میں ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کی زندگی ہر زمانے کے لئے راہنما ہے۔

آپﷺ کی سیرت کے تمام پہلوؤں کااحاطہ‘آپؐ کے ہرعمل اور ادا کی حفاظت‘صبح بیدار ہونے سے لے کر رات سونے تک کے اعمال کیلئے آپؐ کی واضح راہنمائی اور پھر یہ تاکید کہ ہرحال سنت کی پیروی لازم ہے‘ دراصل ایک ایسا پیمانہ ہے جو دو اور دو چار کی طرح واضح کرتا ہے کہ فی الواقعی ہمارا ایمان کس معیارکا ہے؟ اس کی کیفیات اور اثرات کا کیا حال ہے؟ اور ہم نے محبت رسولﷺ کوکس حد تک اپنے تمام انفرادی واجتماعی معاملات پر نچھاور کردیا ہے؟اس کے پیش نظر ہمارا کیا حال ہے؟جہاں تو دور کی بات ہے آج امت اپنے اپنے مقام پر مذہبی اور تہذیبی شناخت کیلئے سرگرداں نظرآرہی ہے۔

لیکن اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی یہ مہلت زندگی‘جواں عزائم اور بلند حوصلوں کی ترجمان بن سکتی ہے۔پھر سے محبت فاتح عالم کی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے۔اللہ کے رسولﷺ کی محبت سے سرشار‘ انفرادی و اجتماعی زندگی گزارنے کا سلیقہ‘انشاء اللہ کھوئے ہوئے وقار کی بازیافت اور معاشرہ میں پرُ عظمت وجود ممکن کرسکتاہے۔وہ قوم جوابتر صورت حال سے ابھر کر زمانہ کی زمام کار سنبھال لے اس کی یہی شان ہوتی ہے جو اسوہ رسول اللہﷺ سے ظاہر ہے۔حالات بگاڑنے والوں کے زور سے بڑھ کر حالات جس کے قابو میں ہیں اس پر توکل اور داخلی کمزوریوں کے باوجود فتح وکامرانی کا مکمل یقین‘عزت وسربلندی کا سبب بنتا ہے۔

ہمارے ملک کے موجودہ حالات‘ سابقہ حالات سے کئی لحاظ سے الگ معلوم ہوتے ہیں۔ بہرحال یہ چاہا جارہا ہے کہ ہم مدافعانہ طرز عمل اختیار کریں اور اپنے حقیقی مسائل پر آواز اٹھانے کیلئے اتفاق واتحاد کا مظاہرہ نہ کریں۔ اس مو قع پر مہمان خصوصی اختیار علی آٹو نگر صدر مو جود تھے۔صدیق احمد، صدر بیت المال بسواکلیان مخدوم محی الدین، مظہر آصف، جلیل ماموں، اکرام الدین چا بکسوار، قیام الدین بیگ، اقرار احمد، صدیق احمد اور دیگر نے شر کت کی۔ پروگرام کے اختتام پر طعام کا نظم کیا گیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!