کیوں نہ اب ہم نئے طریقے سے عید میلاد منائیں! میلاد محبت
مرزا انور بیگ
عدنان پچھلے کئی دنوں سے کافی مشغول تھا۔ مکرم سے بھی نہیں مل سکا تھا جبکہ دن میں ایک بار اگر ان کی ملاقات نہ ہو تو گویا زندگی بے معنی تھی۔
آج تیسرا دن تھا۔ مکرم سے مزید انتظار اب برداشت سے باہر تھا۔ وہ علی الصباح عدنان کے گھر پہنچ گیا تاکہ ہر حال میں ملاقات ہوجائے۔ عدنان ابھی گھر میں ہی تھا۔ مکرم نے شکایتی انداز میں چہرہ بنایا لیکن عدنان نے فوراً نہ ملنے کی وجہ بیان کردی۔
دراصل مکرم تمہیں تو پتا ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ اگلے ہفتے سے شروع ہورہا ہے اور ہم میلاد شریف بڑے دھوم دھام سے مناتے ہیں۔
اچھا ۔۔۔۔۔
مکرم نے لمبی سانس کھینچتے ہوئے کہا۔
بس اسی کی تیاری میں مصروف ہوں۔
کیسی تیاری؟ مکرم نے پوچھا۔
ارے جناب روزآنہ کے وعظ، شیرینی کی تقسیم، اس کا خرچ یعنی شامیانہ، کرسیاں وغیرہ، پھر ایک جھانکی اس میں روشنی کا خرچ، پھر جلوس بھی نکالنا ہے اس کے اخراجات، جھنڈے، بینر، ڈی جے، گاڑیاں اور اشتہارات۔ اب تم ہی بتاؤ اس تمام کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ سب کو جمع کرنا، تیار کرنا، کام تقسیم کرنا اور پھر رقم بھی جمع کرنا۔
رقم بھی؟ مکرم نے تعجب سے پوچھا۔
اور نہیں تو کیا۔ مولانا صاحب کو بارہ دن کا ہدیہ اور ان کے ساتھ جو نعت خواں آتے ہیں ان کا ہدیہ اور پھر کچھ ان کے نائبین آتے ہیں ان کا ہدیہ اور پھر شال پوشی گل پوشی، ان کے رہنے اور کھانے کا خرچ بنا رقم جمع کیے کہاں سے آئے گا۔ پھر جھانکی اور جلوس کا بھی خرچ ہے اور جو علماء شرکت کریں گے ان کے اشتہار اور ان کا ہدیہ۔۔۔۔۔
مکرم حیرت سے سنتا رہا۔ پھر کچھ توقف کے بعد بولا
تقریباً تخمینہ کتنا ہوتا ہوگا۔
دوست کم سے کم اس چھوٹے سے علاقے میں بھی پانچ سے چھ لاکھ تک خرچ ہوجاتا ہے ویسے اللہ بہت بڑا ہے اور عاشقان رسول کے دل بھی کافی بڑے ہیں۔ کوئی دقت نہیں۔
محترم ایک بات کہوں۔ مکرم نے بڑی دلسوزی سے کہا۔
کیا؟
یہ سب عشق رسول میں کرنا ہے نا ؟
کوئی شک؟
نہیں۔ ہے شک
کیوں نہ ہم نئے طریقے سے اب کی عید میلاد منائیں۔
نئے طریقے سے؟ وہ کیسے؟ عدنان نے منہ بسورتے ہوئے پوچھا۔
یہ جو چھ لاکھ جمع ہوں گے نا ان سے کسی غریب بیمار کا علاج کروا دیں۔ یا کسی غریب کی بیٹی کا نکاح یا کسی غریب کی اسکول کالج کی فیس بھر دیں۔ اپنے علاقے کے کسی مقروض کا قرض اتار دیں۔ کیا تم میری بات سے اتفاق کرو گے میرے دوست۔
عدنان کسی گہری سوچ میں پڑ گیا۔
مگر وہ علماء۔۔۔۔۔۔
علماء ؟ جو عشق رسول پر وعظ کے لئے فیس لیتے ہوں وہ؟ یا نعت خواں جو بغیر ہدیہ لئے نعت نہ پڑھتا ہو وہ ؟ ان کی خوشنودی تمہیں مقصود ہے؟
جی میں وہی کہہ رہا تھا۔
پھر کیسا یہ عشق ہے میرے بھائی۔
عشق اگر ہے تو آؤ میرے ساتھ اسی رقم سے ہم برادران وطن تک اسلام کی دعوت پہنچائیں۔ ان کے دکھ درد کو بانٹیں ۔ یقین جانو وہ ہم سے زیادہ دکھی ہیں۔ ہمیں تو آخرت کا یقین ہے کہ یہاں نہیں تو وہاں ملے گا مگر ان کی تو کل دنیا یہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں نہیں ملا تو زندگی بیکار ہے اور اسی لئے وہ کسی طرح کی بھی پریشانی سے جو خاندانی ہو، گھریلو ہو، وطنی ہو، سیاسی ہو، معاشی ہو اس سے بہت زیادہ مایوسی ان کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اور وہ پریشان اور دکھی ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے گھریلو جھگڑے ہوتے ہیں، ان کے بچے مایوسی کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں خودکشی کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ یقین جانو انہیں قلبی سکون حاصل نہیں ہے۔ آؤ ہم ان سے مل کر ان کی پریشانیوں کو رسول کے پیغام سے دور کریں۔ وہ سودی قرضے میں ڈوبے ہیں ان کو اس بھنور سے نکالیں۔ انہیں محبت سے اپنا بھائی کہیں۔ ان کے آپسی تنازعات کے حل کی کوشش کریں۔ انہیں تحفے دیں۔ میلاد کے دن انہیں اپنے گھر مدعو کریں۔ انہیں کھانا کھلائیں۔ اس عید میلاد کو عید محبت بنا دیں۔ کیا تم میرا ساتھ دو گے؟
عدنان خاموشی سے اس کی بات سنتا رہا۔
دوست یہی ہے عشق رسول۔ ہمارے رسول راتوں کو امت کے لئے روتے تھے۔ جانتے ہو وہ امتی کون ہیں؟
کون؟
برادران وطن۔ وہ جو اسلام کے حلقہ امن میں اب تک نہیں ہیں۔ ان کے لئے۔
کرو گے اس طرح کا عشق؟
عدنان کچھ دیر آنکھیں بند کئے سوچتا رہا۔ پھر اس نے آنکھیں کھولیں۔ اس کی آنکھوں میں ایک نئی چمک تھی۔ بولا
دوست میرے بھائی۔ میں دوں گا تمہارا ساتھ۔
اس نے مکرم کا ہاتھ پکڑ کر اوپر اٹھا دیا۔
میں دوں گا ساتھ۔ مگر قوم اس کے لئے رقم نہیں دے گی۔ قوم واعظ کے نام پر تو دے گی۔ شیرینی کے لئے تو دے گی۔ جھانکی کے لئے اور ڈی جے کے لئے، جلوس اور جھنڈے کے لئے تو دے گی مگر اس کے لئے نہیں۔
عدنان کے لہجے میں افسوس اور یاس تھا۔
کوئی بات نہیں۔ مکرم نے دلاسہ دیا۔ ہم مل کر اپنے دم پر اپنے برادران وطن تک محبت کا پیغام لے کر نکلیں گے۔ لوگوں سے کہیں گے۔
آج عید میلاد ہے۔ عید محبت ہے۔