ڈاکٹر صاحبہ کچھ بھی کریں، مگر یہ بچہ دنیا میں نہ آئے۔۔۔
عائش بنت محمد
“ڈاکٹر صاحبہ کچھ بھی کریں، مگر ہم نہیں چاہتے کہ یہ بچہ دنیا میں آئے”
“آپ کو احتیاط کرنی چاہیے تھی مگر اب کے لئے میں آپ کو کچھ دوائیں لکھ کر دی رہی ہوں، یہ استعمال کریں آپ کا حمل ضائع ہوجائے گا”
ایک اور بچہ، ایک اور ماں۔ ۔ ۔
جانے وہ کتنے بچوں کے قتل میں شریک ہوئی تھی کہ شہر کی مشہور گائناکالوجسٹ ہونے کے ناطے ہر چھوتے روز اس کے پاس اس طرح کے کیس آتے رہتے تھے اب اسے اس چیز کی “عادت” ہوگئی تھی!
___
صائمہ کے شوہر نے راستے میں موٹر سائیکل روک کر میڈیکل سٹور سے ادویات لیں اور دونوں میاں بیوی نے خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات لیے گھر کا رخ کیا۔
“صائمہ بھابھی آخر آپ ایسا کیوں کرنا چاہتی ہیں؟ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور اللہ تو کہتے ہیں اپنی اولاد کو غربت کے خوف سے قتل مت کرو انہیں اور تمیں ہم ہی رزق دیتے ہیں”
زرینہ تم تو جانتی ہی ہو حاشر ابھی چار ماہ کا ہے، وہ میرے دودھ کے علاوہ کوئی چیز نہیں لیتا، اللہ تو نیتیں جانتے ہیں ہم کون سا کسی بری نیت سے ایسا کر رہے ہیں ہماری مجبوری ہے اور پہلے ہی دو بچے ہیں حاشر کے ابو نہیں چاہتے کہ ابھی ایسا کچھ ہو”
صائمہ نے ان دلائل سے زرینہ کو قائل کرنے کی کوشش کی جن سے وہ اپنے دل کو تین دنوں سے سمجھا رہی تھی۔ ۔ ۔
“لیکن بھابھی یہ وجوہات اتنی بڑی نہیں ہیں کہ ایک جان ضائع کردی جائے، یہ بالکل ویسے ہی قتل ہے جس طرح آپ اپنے ہاتھوں سے حاشر یا حامد کا گلا گھونٹ دیں”
“بس کرو زرینہ۔ ۔ مت بار بار یہ لفظ استعمال کرو میرا دل بیٹھتا ہے”
صائمہ نے زرینہ کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
صائمہ ایسا مصمم ارادہ کر چکی تھی کہ اپنی نند کی باتوں کو اس نے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا تھا۔ ۔
_______
آج حاشر و حامد کی حادثاتی موت ہوئے تین سال ہونے کے قریب تھے۔
(حاشر اور حامد سکول سے واپسی پر ایک ٹریلر کی زد میں آئے اور اس دنیائے فانی سے کوچ کرگیے، صائمہ تو تقریباً اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی تھی، آہستہ آہستہ خاندان والوں کی سپورٹ سے زندگی کی طرف لوٹی تھی)
“ڈاکٹر صحابہ پلیز کچھ کریں ہماری پاس اب کوئی نہیں بچا، ہمیں اولاد چاہیے، کچھ کریں کہ جو پچھلا حمل ضائع کرتے مسئلہ بنا تھا درست ہو جائے اور حمل ٹھہر جائے”
صائمہ نے روتے روتے ڈاکٹر سے التجاء کی
“بہن دیکھیے ہم کوشش کرسکتے تھے جو ہم پچھلے دو سال سے کر رہے ہیں، ٹیسٹ کی رپورٹس یہ کہتی ہیں کہ آپ اب ماں بننے کے قابل نہیں رہیں، بہرحال میں مزید کچھ ادویات لکھ دیتی ہوں انہیں استعمال کیجیے”
صائمہ نے تین سالوں میں شہر کا کوئی ڈاکٹر، کوئی حکیم نہیں چھوڑا تھا مگر بےسود۔ صائمہ کا شوہر بھی اس سے خفا رہنے لگا تھا کہ تم مجھے اولاد نہیں دی سکتی تو میں دوسری شادی کرلوں گا۔ ۔ ۔
اتنے سالوں بعد آج اسے اس “قتل” کا احساس ہوا تھا جو اس نے اپنے ہاتھوں سے کیا تھا، رب کی دی ہوئی نعمت کو ٹھکرایا تھا قدرت نے ایسی سزا دی کہ دوبارہ کبھی اپنے گھر وہ رونق نہ دیکھ سکی۔ ۔ ۔
_____