ادبی دنیانثر

اِدارہٴ ادبِ اسلامی ہند کی جنوبی ہند کانفرنس

(پانچویں قسط)

رپورتاژ: محمد یوسف عبدالرحیم بیدری

میں اپنے سامان کی طرف چلاآیا۔ چونکہ اپنے موبائل کا چارجربیدر میں بھول آیاتھا، اور ادبی کانفرنس کوفیس بک پر Liveنشر کرناتھا۔ اسلئے پہلے ہی سے بیاٹری کو صدفیصد بھرلینا چاہتا تھا۔ ایک مقام پر جناب عبدالقدیرریاستی سکریڑی ادارہٴ ادب اسلامی ہند کرناٹک کھڑے ہوکر کچھ کام کرتے نظر آئے۔ میں نے ان سے دریافت کیا ”چارجر ہے“انھوں نے فوری طورپر اپناچارجر پیش کردیا۔ میں نے اپنے فون سے چارجر کو جوڑ کر وہیں بیٹھ گیا۔ اسی اثناء میں ایک فون کال کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چارجر سے موبائل نکال کر میں بات کرنے لگا۔

جنوبی ہند کانفرنس کا پروگرام 11بجے شروع ہونے والاتھا۔ ابھی وقت تھا۔اسی ہال میں، میں اوپر چلاآیا۔ کانفرنس ہال دیکھنا مقصو دتھا۔ لیکن یہ جان کر حیرت اور مسرت کا میٹھا ساجھٹکا لگاکہ ارے جنوبی ہند ادبی کانفرنس تو مسجد میں ہورہی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟مسجد میں اورادبی کانفرنس؟؟؟ دل مان نہیں رہاتھا۔ لیکن سچائی سامنے تھی۔جنوب کی سمت منہ کئے ہوئے کرسیاں بچھادی گئی تھیں۔ میں اپنے جذبات کو بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ جن شعراء کو آوارہ گرد، شرابی کبابی کہاگیا،معاشرے نے جنہیں کام چور اور نکمے جیسے القاب سے نوازا، شیخ صاحب نے جنکا داخلہ مسجد میں ممنوع قراردے دیاتھا آج ان ہی شعراء، ادباء اور ناقدین ادب کی نسل کو مسجد میں جگہ دی جارہی تھی۔ صرف جگہ ہی نہیں دی گئی تھی بلکہ جنوبی ہندکی ادبی کانفرنس کو مسجد میں منعقد کرنے کا تاریخی موقع فراہم کیاگیاتھا۔میں نے سوچا، یااللہ،آخر یہ ماجراء ہے؟میری آنکھیں کیا دیکھ رہی ہیں؟کیاشاعروں،ادیبوں کے بھی اچھے دن آگئے ؟میں نے فوری طورپر اپنے موبائل کے کیمرے سے کچھ فوٹوز لئے۔ اور اپنی اہلیہ کے واٹس ایپ پر بھیج دئے۔ اتنا ہی نہیں کہ کانفرنس مسجد میں ہورہی تھی بلکہ اس مسجد کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں ممبر کے دائیں جانب ایک شاندار لائبریری واقع تھی جن میں تفاسیر، احادیث مبارکہ، اور دینی کتابیں سلیقے سے سجی ہوئی تھیں اور اخبارات بھی رکھے ہوئے تھے۔ لائبریری کی تصویر بھی میں نے اہلیہ کے واٹس ایپ پر Sendکردی۔

میں کانفرنس ہال یعنی مسجد سے نیچے اتر آیا۔ تو کیادیکھتاہوں کہ خوش آمدید بیانر پر تحریر”شرکا دوروزہ جنوبی ہند کانفرنس“کے پہلے لفظ ”شرکا“ کے ش پر پیش اور آخر میں ہمزہ لگاکر ”شُر کاء“ بنادیاگیا
ہے۔ ایسا کیوں کیاگیا؟ کیا پہلے غلط لکھاہواتھا؟لفظ خوش آمدید بڑے لفظوں میں تھااور وہ تنہا اوپردرج تھا۔ نیچے ”شرکا دوروزہ جنوبی ہند کانفرنس“ تحریرتھا۔ تب اچانک ہی خیال آیا۔اچھا، پیش اسلئے لگایاگیا ہے کہ کوئی اس کو ”شر“ نہ پڑھ لے۔ اور چونکہ شرکا کے آخر میں ہمزہ بھی نہیں تھا اسلئے اس بات کااحتمال بھی تھا۔ یعنی شر(فتنہ وفساد) کا دوروزہ جنوبی ہند کانفرنس۔لیکن اگر کوئی ”شر“ تلفظ کربھی لے تو کیاہوتا، آگے ’کا‘ لکھا ہواہے۔ ’کا‘کے بجائے اگر ’کی‘ ہوتاتوشاید کوئی بات بن جاتی۔ یعنی شرکی دوروزہ جنوبی ہند کانفرنس۔ خواہ مخواہ اعراب لگاکر شکوک میں اضافہ کردیاگیا۔ اردو زبان اعراب سے مستثنیٰ ہے۔ اور یہی اس کاعلم وحسن ہے۔اس علم وحسن کوباقی او رصافی رہنا چاہیے۔

اسی اثناء میں بیدر کے معروف دیہات بگدل کے تاجر جناب عبدالسلیم بگدلی ایک لمبی سی کار میں سوا رہوکر کانفرنس میں شرکت کے لئے پہنچے۔ انھوں نے کار کے اندر سے مجھے سلام کیا۔ بلکہ اس طرف میں نے بھی سلام کے لئے اپناہاتھ پیشانی تک اٹھایاہواتھا۔ سامنے ان کے بڑے فرزند اور میرے دوست محمد متین بیٹھے تھے۔ پیچھے ان کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائی بھی تھے۔ وہ نیچے اتر گئے۔ میں نے آگے بڑھ کر مصافحہ کیا۔ پھر کار انہیں چھوڑ کر واپس چلی گئی۔ متین نے نیچے اترنے کی زحمت گوار انہیں کی تھی۔ میں نے بھی کسی جذبے یاتقاضے کا اظہا رنہیں کیاتھا۔ بڑے شہروں میں لوگوں کو ان کی اپنی حالت میں چھوڑ دینا چاہیے۔ بڑے شہروں میں آدمی مصروفیت کا بھنڈار سر پر لئے ہوتاہے ایسے میں کسی کو روکنا، اترنے کے لئے کہنایا منانا کسی بھی طرح درست نہیں۔ میں نے عبدالسلیم بگدلی صاحب کو پہلی منزل پہنچ کر ناشتہ سے فارغ ہولینے کے لئے کہا۔ وہ ناشتہ کے لئے چلے گئے۔ میں پھر ایک بار کانفرنس ہال، معاف کریں، میں پھر ایک بار مسجد میں داخل ہوگیا۔”کانفرنس گاہ“ میں صرف دو افراد تھے۔ کنوینر ریاض احمد تنہا کے ساتھ وسیم احمد بیٹھے نظر آئے۔ میں نے کانفرنس کے مرکزی بیانرکی تصویر کھینچ لی۔ وسیم احمد صاحب سے استدعا کی کہ آپ بیانر کے سامنے آجائیں، آپ کی تصویر لینا چاہتاہوں۔ وہ منع کرنے لگے لیکن میں کہاں ما ننے والاتھا؟آخر کار انھیں بیانر کے سامنے پوڈیم کے ساتھ کھڑا ہونا پڑا۔ میں نے ان کی چارپانچ تصویریں کھینچ لیں اور ان کاشکریہ اداکیا۔

پھرخیال آیاکانفرنس شروع ہونے میں کچھ وقت باقی ہے۔ موبائل کی چارجنگ بڑھالی جائے۔دوبارہ نیچے رہائش گاہ چلاآیا۔اس دفعہ میں نے بنگلور کے فیاض قریشی صاحب سے چارجر مستعار لے کر موبائل سے جوڑ دیا۔ اور اس کے چارج ہونے کاانتظار کرنے لگا۔ اسی درمیان میں چند شعراء اور ادباء سے سلام علیک اور بات چیت ہوتی رہی۔ کوئی جلدی میں نظر نہیں آرہاتھا۔ اور ایک آدھ کو چھوڑ کر کسی کے چہرے بشرے سے ایسا نہیں لگ رہاتھاکہ وہ اس کانفرنس میں شرکت کو لے کر بڑا ہی پرجوش ہے۔ چونکہ دوردرازکے مقامات سے شعراء آئے ہوئے تھے اس لئے ہوسکتاہے ان کی طبع نازک پر یہ سفر گراں گزرا ہوگا۔ اور اب آرام کرتے ہوئے میری خلل اندازی سے ناگواری محسو س کررہے ہوں گے۔مجھے خوشی البتہ اس بات کی تھی کہ یہاں نوجوان شاعر اور قلمکار بھی نظر آرہے تھے۔ لیکن میں جان نہیں سکاکہ یہ کس ریاست سے تعلق رکھتے ہوں گے؟ اتنے میں کسی نے جماعت اسلامی کے لب ولہجہ میں آواز لگائی ”حضرات! کانفرنس شروع ہونے والی ہے، فوراً کانفرنس ہال تشریف لائیں“

(۔۔۔جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!