سیریز/قسط وارمضامین

تُرکوں کا عکس تاریخ کے آئینے میں۔۔۔

(قسط 1)

تابش سحر

زمانے کے کئی رنگ و روپ ہے، قوموں کے عروج و زوال کی کہانیاں بتلاتی ہیں کہ زمانہ کبھی نہیں تھمتا، وہ ہردم سفر کرتا ہے، کبھی کسی قوم پر مہربان ہوتا ہے تو کبھی کسی قوم پر عتاب بن کر نازل ہوتا ہے، کبھی حالات یوں بھی آتے ہیں کہ انسان اپنے محبوب ترین وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا ہے، نہ چاہتے ہوے بھی وہ انجان منزل کی طرف قدم اٹھاتا ہے، اور گردشِ زمانہ اسے یہاں سے وہاں بھٹکنے پر مجبور کردیتی ہے، سعادت و نیک بختی اسی کے قدم چومتی ہے جو حالات کا ڈٹ کر سامنا کرتا ہے-

آج عالمِ اسلام دشمن کی لگائی آگ میں جھلس رہا ہے، عراق و شام ملبے کا ڈھیر بن کر رہ گئے ہیں، فلسطینی صبر و استقامت کے ساتھ شہداء کے جنازے پڑھ رہے ہیں، افغانستان میں آئے دن امن کی فضا کو مکدّر کیا جاتا ہے، برما اور چین میں مسلمانوں کی نسل کشی ہوتی ہے اور سارے عالم میں مسلمانوں کو تختۂِ مشق بنایا جاتا ہے تو وہیں سارے عرب حکمراں اپنے عشرت کدوں میں چین کی نیند سوتے ہیں، وہ اپنے مغربی یاروں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کرسکتے، وہ اسلامی اخوّت کا سبق بھلا کر سرحدوں کی بندشوں میں قید ہوکر رہ گئے ہیں، ان کی دنیا اپنے ملک کے’ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب پر ختم ہوجاتی ہے، حد تو یہ ہے کہ وہ اپنی دنیا میں بھی مسلمان حکمراں ہونے کا حق ادا نہیں کرپاتے، انہیں اسلام پسندوں سے ڈر لگتا ہے، مکمّل اسلامی قوانین سے وہ بِدک جاتے ہیں، جدّت پسندی (ماڈرن ازم) اور مغرب سے گہری دوستی نے ان سے حمیّت و غیرت چھین لی، شیخِ حرم مسلمانوں کے قاتلوں کو امن کا پیمبر کہتے ہیں اور مسلم حکمراں دوسرے اسلامی ممالک کا بائیکاٹ کرکے غیروں سے مصالحت اختیار کرتے ہیں، ایسے حالات میں ایک ملک ایسا نظر آتا ہے جو دہشت گردوں اور فتنہ پروروں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے، جو مظلوموں کے حق میں کارِ مسیحائی انجام دیتا ہے، وہ اقوامِ متّحدہ میں مسلمانوں کی ترجمانی کرتا ہے، اور دنیا بھر میں پریشان’ مسلمانوں کی مظلومیت دیکھ کر آنسو بہاتا ہے اور ان کی اعانت کے لئے کمر بستہ ہوجاتا ہے، جی ہاں ترکی! وہی ترکی جہاں ایک صدی قبل خلافتِ عثمانیہ کے پرچم لہراتے تھے-

خلافتِ عثمانیہ تُرکوں کی بہادری و شجاعت، دینی حمیّت و غیرت، انسانیت نوازی و رعایا پروری کا جیتا جاگتا ثبوت تھی، اس ریاست کا وجود مسلمانوں کے لئے عافیت کا سامان تھا، وہ ایک سائبان تھا جس کے تلے سارا عالمِ اسلام چین کی سانس لیتا، آج جہاں چھوٹے چھوٹے اسلامی ملکوں نے جنم لیا ہے اور عیش پسند و دنیا پرست حکمرانوں کے سبب پیدائشی طور پر معذور و بےبس نظر آتے ہیں وہاں خلافتِ عثمانیہ ایک مستحکم اور اسلام پسند ریاست تھی لیکن ترکوں نے یہ سب کیسے کرلیا تھا؟ کیسے ترک قوم مسلمانوں کے قریب ہوی اور کعبے کا پاسباں بن گئی؟ ان کا آغاز کیا تھا؟ وہ کونسی سرزمین کے باشندے تھے؟

ترک قوم کا تعلّق وسط ایشیا ماوراء النھر کے علاقے ترکستان سے ہے، عرب مؤرّخین اپنی کتابوں میں ماوراء النہر کا جابجا تذکرہ کرتے ہیں، دریائے آمو (جیحون) اور دریائے سیر (سیحون) کے درمیان کا علاقہ ماوراء النہر کہا جاتا تھا، جس کے مشہور و معروف شہر بخاریٰ، سمرقند، ترمذ وغیرہ تھے، ترکستان ایک وسیع و عریض سرسبزوشاداب علاقہ تھا، جہاں مختلف قبائل عرصۂِ دراز سے زندگی گزار رہے تھے، جن کی اپنی تہذیب اور رسم و رواج تھے، یہیں سے وہ عظیم شاہراہ گزرتی جو چین و یورپ کے مابین تجارت کا ذریعہ تھی، ان قبائل کو ترک یا اتراک کہا جاتا تھا، ترکستان کے مشرق میں منگولیا اور شمالی چین کے علاقے، مغرب میں بحر قزوین، شمال میں سائبریا کے میدانی علاقے اور جنوب میں تبّت، پاکستان، افغانستان اور ایران کے علاقے آتے تھے-

مشرقی ترکستان پر آج چین کا قبضہ ہے جو وہاں آباد ایغور مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھاتا ہے، مغربی ترکستان سویت یونین کے قبضے سے آزاد ہوکر مختلف ممالک کی شکل اختیار کرگیا ہے جیسے ازبکستان، قازقستان، تاجکستان اور ترکمانستان وغیرہ-

چھٹی صدی عیسوی میں ترک قوم کے کچھ قبائل ہجرت کرکے اناطولیہ (ایشیائے کوچک، موجودہ ترکی) چلے آئے اور یہیں سکونت اختیار کرلی، مؤرخین میں سے بعض اس ہجرت کی وجہ شدید قحط بتلاتے ہیں تو وہیں بعض اس ہجرت کو دشمنوں کے شر سے نجات کا وسیلہ قرار دیتے ہیں یعنی منگولیائی دشمنوں کی شرارتوں سے تنگ آکر انہوں نے ہجرت کی، بہرِحال وجہ جو رہی ہو یہاں سعادت و نیک بختی ترکوں کے حصّے میں آگئی کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب اسلامی فوجیں چاروں سمت پیش قدمی کررہی تھی، معرکۂِ نہاوند میں مسلم جانبازوں نے فتح کا پرچم لہرایا تھا، ایران میں ساسانی حکومت کا قصّہ تمام ہوگیا تھا، مسلم فوج اپنے کمانڈر حضرت عبدالرّحمن بن ربیعہ رضی اللّه عنه کی قیادت میں ان علاقوں میں پہنچی جہاں ترک اقامت پذیر تھے، ترک سردار شہربراز اور مسلم کمانڈر کی ملاقات ہوی جس میں شہربراز نے صلح کی درخواست کی اور مسلمانوں کے ساتھ آرمینیہ پر حملہ کرنے کی پیشکش کی، مسلم کمانڈر نے شہربراز کو اپنے سپہ سالار سراقہ بن عمرو رضی اللّه عنہ کے پاس بھیجا، سپہ سالار نے صلح کی درخواست منظور کرلی اور ایک خط امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللّه عنہ کو روانہ کیا جس میں اس صلح کے متعلّق خبر تھی، خلیفۂِ ثانی نے ان کی رائے سے اتّفاق کیا اور باضابطہ مسلم اور ترک قوم کے مابین معاہدہ طئے پایا اور کوئی جنگ ان کے درمیان نہیں ہوی، ترکوں نے اسلامی فوج کے ساتھ پیش قدمی کی اور مسلمانوں کے عقائد و نظریات عادات و اطوار کو قریب سے دیکھا اور اسلام کی پاکیزگی اور سادگی سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا-

خلیفۂِ ثالث حضرت عثمان رضی اللّه عنہ کے زمانے میں اسلامی لشکر دریائے جیحون پار کرکے ماوراء النہر پہنچا، یہاں بھی موجود ترکوں نے اسلام کی دعوت قبول کی- حضرت امیر معاویہ رضی اللّه عنه کے زمانے میں بخاریٰ و سمرقند جیسے خوبصورت و قدرتی وسائل سے بھرپور علاقے اسلام کی عظیم سلطنت کا حصّہ بن گئے، ترک اسلامی رنگ میں رنگ گئے تھے-

عہدِ عبّاسی میں ترکوں کو سیاسی عروج حاصل ہوا، مامون کے زمانے سے ایرانی اہم عہدوں پر فائز چلے آرہے تھے، ان سے سرکشی کی بو آنے لگی تھی سو ان کا زور ختم کرنے کے لئیے ایک عبّاسی حکمراں نے ترکوں پر نوازشات کی بارش شروع کردی—-
(……جاری ہے )

نوٹ:- کیا آپ اُس عبّاسی حکمراں کو جانتے ہیں جس نے ترکوں کو اہم عہدے تفویض کئے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!