سماجیمضامین

مسئلہ کشمیر نے ملی قائدین کو بےنقاب کردیا! آخرکیا ہوگیا انہیں۔۔۔؟

محمد خالد داروگر، سانتاکروز، ممبئی

مودی حکومت کے ذریعے کشمیر سے آرٹیکل 370/کو ہٹائے ہوئے دو ماہ مکمل ہونے جارہے ہیں اور حکومت کی طرف سے عائد پابندیاں بدستور جاری وساری ہیں اور اس میں ڈھیل دے جانے کا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے کشمیر کے مسلمانوں کو گھروں میں محصور رہتے ہوئے مرنے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ کشمیر کے معاملے میں مودی شاہ کے ہٹلر شاہی فرمان کے خلاف ملک اور بیرون ملک مسلسل آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن حکومت اس کا کوئی اثر لیے بغیر اپنی پالیسی پر اندھوں اور بہروں کی طرح گامزن ہے اور مستقبل میں اس کے کیا بھیانک نتائج ظاہر ہونگے اس کی اسے سرے سے کوئی پرواہ نہیں ہے۔

کشمیر کے مسئلے نے ہمارے ملی قائدین کو بھی سرعام بےنقاب کردیا ہے۔ جمیعت علمائے ہند کے جنرل سیکرٹری مولانا محمود مدنی صاحب اور اہل حدیث کے امیر اور سلفی رہنما مولانا علی اصغر سلفی نے مودی شاہ کی لائن اختیار کرتے ہوئے کشمیر سے آرٹیکل 370/کو ہٹائے جانے کو حق بجانب قرار دیا ہے اور یہ دونوں حکومت کے موقف کی حمایت کرنے میں بہت آگے جاچکے ہیں۔ اس سلسلے میں مولانا محمود مدنی صاحب تو کئی قدم آگے نکل گئے اور کشمیر پر اپنے موقف کی تشہیر کرنے اور حکومت کے موقف کی تائید کرنے کے جینیوا تک جا پہنچے۔

مودی شاہ کی حکومت نے مولانا محمود مدنی کو ایسا کیا پیکیج دے دیا کہ وہ حکومتی لائن اختیار کرنے میں حکومت کے لئے بالکل رام ہوگئے۔ مولانا محمود مدنی کو برادران وطن کی مشہور و مقبول شخصیات سے سبق حاصل کرنا چاہیے جو بے خوف و خطر اور کھل کر کشمیر مسئلے پر حکومت کے فیصلے کے خلاف اپنی رائے کا اظہار ببانگِ دہل کررہے ہیں۔

بے آوازوں کی آواز کہے جانے والے مشہور و معروف این ڈی ٹی وی کے صحافی رویش کمار نے ایک اوپن پروگرام میں کشمیریوں کے تعلق سے کہا کہ “آپ اپنے آپ کو چار دن کے لئے گھر میں بند کرلیں اور پھر دیکھیں آپ کی حالت کیا ہوتی ہے۔ کشمیریوں کو ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا وہ گھروں میں بند ہے ان کی کیا حالت ہورہی ہوگی اس کا اندازہ کیجئے۔ اسی طرح برادران وطن کی ایک خاتون “پوجا ناگر” نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کشمیریوں کے حق اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ” کیا کشمیریوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیں؟

کیا ملک کے عوام ان کی آواز نہ اٹھائیں؟ بھاجپا (بی جے پی )کے لوگ آخر کیوں کہتے ہیں کہ آپ کشمیر کے بارے میں مت بولیے؟میں کشمیر کے بارے میں کیوں نہ بولوں، کیا انہوں نے 1947ء میں ہم پر بھروسہ کرکے ہندوستان کا اٹوٹ انگ (حصہ ) نہیں بنے تھے۔اس لیے ہم ان کے ساتھ ہیں۔ مارکنڈے کاٹجو سابق چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ” سچ بولنے کا ایک وقت ہوتا ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ وقت آگیا پے، اور بلی کی گردن میں گھنٹی باندھنے کا یہ کام میں کررہا ہوں، کشمیر وہ بنے گا جو ویتنام فرانس اور امریکہ کے لیے، افغانستان روس کے لیے اور اسپین نپولین کے لیے بنا تھا۔

کاش ملی قائدین ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر اجتماعی طور پر فیصلہ لیتے ہوئے کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرتے اور حکومت پر دباؤ ڈالتے ہوئے کہتے ہم کشمیر مسئلے پر حکومت کے ساتھ نہیں اور نہ ہی ہم حکومت کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!