قوموں کےمستقبل کا معمار استاد کیوں!
ذوالقرنین احمد (فری لانس جرنلسٹ، چکھلی ضلع بلڈانہ مہاراشٹر)
ہر سال عالمی سطح پذ ۵ اکتوبر کو عالمی یوم اساتذہ منایا جاتا ہے، اسی طرح بھارت میں ۵ ستمبر ملک کے دوسرے صدر جمہوریہ اور ماہر تعلیم ڈاکٹر سروے پلی رادھا کرشنن کے یوم پیدائش کے موقع پر یوم اساتذہ منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد طلباء کے اندر اساتذہ کے مقام و مرتبہ کو تسلیم کرنا اور انکی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ اسکے ساتھ ہی عالمی سطح پر تعلیمی معیار کو بلند کرنے اور تعلیمی نصاب کو اساتذہ و طلباء کیلے مفید بنانے پر غور خوص کرنا ہے۔ اساتذہ کا کردار قوم و ملت کی ترقی میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
یہ اساتذہ ہی ہیں جو درس و تدریس کے فرائض بخوبی انجام دیں کر ایک طالب علم کی زندگی کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بچے کے پیدائش کے بعد مادر علمی کے بعد اسے اسکول میں دخل کروایا جاتا ہے ۔ اس وقت وہ بلکل کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے اسکا ذہن بھی علمی دنیا سے خالی ہوتا ہے۔ اس کورے کاغذ کو علم کی کتاب اور وہ بھی ایسی کتاب جس میں زندگی گزارنے کے عوامل کا مقابلہ کیسے کیا جائے میں ڈھالنے کا کام اساتذہ انجام دیتے ہیں۔
قابل اساتذہ قوم کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن یہ اس وقت ممکن ہے۔ جب وہ اپنے مقام کو پہچانے اور اپنی قابلیت کے زریعے اپنی قوم کے بچوں کی اس نہج پر تعلیمی تربیت کریں اور اسکے اندر اخلاق و کردار کو پیدا کریں جو اپنی قوم و ملک کیلے ایک رہنما بن کر ایک لیڈر اور قیادت بن کر ابھرے۔ اسکے اندر دنیا کو اپنی مٹھی میں قید کرنے کا سلیقہ پیدا ہو، وہ حوادث دنیا کے طوفانوں سے اپنی کشتی کو بچاتے ہوئے پار کرانے کا ہنر جانتا ہو، اسکے دل میں قوم و ملت کی خدمات کا جزبہ کوٹ کوٹ بھرا ہو، وہ اپنی علم کا عملی مظاہرہ پیش کریں، وہ صرف اپنی ذات تک محدود نہ رہ جائے صرف اپنے مفاد کی خاطر اپنی قوم کو نظر انداز نہ کر دے۔ اگر اساتذہ ایسے طلباء کو اپنی تدریس کے زریعے اپنی شفقت و محبت کے زریعے ان خالی ذہنوں میں تعلیم کے اخلاقی قدروں کو بھی پروان چڑھائے تو ایسے طلباء آنے والے مستقبل کے رہنما و رہبر ثابت ہوسکتے ہیں۔
اسکی سیکڑوں مثالیں تاریخ میں موجود ہے۔ جنہوں نے اپنے استاد کی تربیت میں رہے کر اپنی زندگی کو کامیاب بنایا ہے۔ آج تعلیمی نظام اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔ کہ تعلیمی ادارے صرف اپنے مفاد کی خاطر قوم کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔ پرایوئٹ تعلیمی اداروں میں تعلیمی معیار اس قدر گر چکا ہے کہ وہاں کے طلباء نا تو مادری زبان پر عبور رکھتے ہے نہ فنی تعلیم کو حاصل کر سکتے ہیں۔ کیونکہ وہاں ایسے اساتذہ تدریس کے مقدس پیشہ کو بدنام کر رہے ہیں۔
سو خود ٹیچر بننے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔ اور وہ اس بنیاد پر ٹیچر اہلیتی کورس میں داخلہ لیتے ہیں جب انکا کسی بھی تکنیکل کورس میں داخلہ نہیں ہو پاتا ہے۔ میرا مقصد اساتذہ کو نشانہ بنانہ نہیں ہے لیکن آج کی حقیقت یہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر جگہ ایسا ہی حال ہے۔ ایسے قابل اساتذہ بھی ہماری قوم میں اداروں میں موجود ہے جہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء آج بڑے بڑے عہدے پر فائز ہیں’۔
یوم اساتذہ کے موقع پر بھارت میں مختلف تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے تقریری مقابلے ہوتے ہیں۔ اساتذہ کی شان میں ترانے گیت پڑھیں جاتے ہیں۔ جسکا مقصد اساتذہ کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ قابل اور مثالی معلمین کو حکومتی سطح پر ایوارڈ دئیے جاتے ہیں۔ اپنی بہترین کارکردگی اور فرائض کو بخوبی انجام دینے پر انہیں انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ تحفے و تحائف دیے جاتے ہیں۔ طلباء اس دن کو اساتذہ کا کردار ادا کرتے ہیں اور اساتذہ کے کندھوں پر کتنا بوجھ اور ذمہ داری ہوتی ہے۔ اسکا احساس ہونے اس دن پتہ چلتا ہے۔
اگر اساتذہ اپنے فرض منصبی کو بخوبی انجام دینا شروع کردیں تو قوموں کا مستقبل روشن و تابناک ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ وہ اس وقت ممکن ہوگا جب اساتذہ طلباء اور والدین بھی اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے۔ کیونکہ قوموں کی ترقی اسی وقت ممکن ہوگی جب ہم اپنے قوم کے نونہالوں کی معیاری تعلیم فراہم کریں انہیں قابل اساتذہ میسر ہو سکے۔ جب قابل اساتذہ موجود ہونگے تو ایسے طلباء ہمارے تعلیمی اداروں سے فارغ ہوگے جو ملک کے اندر اپنی قابلیت و ہنر کے زریعے اپنی موجودگی کا ثبوت دلائے گے۔
قوموں کی ترقی کوئی یکدم نہیں ہوا کرتی ہیں۔ آج اگر اس بات پر زور دیا جائے کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں کے معیار بلند کرے گے، ہم ایسے قابل اساتذہ کو اسکول پر درس و تدریس کیلے مقرر کرے گے۔ جو حقیقت میں قابل ہو ہم اپنے اداروں کو تعلیمی ڈگریاں بیچنے کی فیکٹریاں نہیں بنائیں گے۔ آج پرائمری اسکولوں کا معیار تعلیم بہت ہی گرا ہوا ہے۔
اگر بنیادی تعلیم بچوں کو صحیح طور پر نہیں دی گئیں تو اس قوم کے بچوں سے امید لگانا بے کار ہوگا۔ قومی تعلیمی اداروں کو منظم طریقے سے چلانے کے ضرورت ہے۔ صرف پیسے کمانے کے مقصد سے قوم کا پیسہ براباد کرنا اور معصوم بچوں کے ساتھ قوم و ملت کے مستقبل کو اندھیرے میں دھکیلنا بڑا ظلم ہے۔ حالات یہ بنی ہوئے سرکاری اداروں میں نوکریاں کرنے والے افراد اپنے بچوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بھاری فیس ادا کرکے داخلہ کرواتے ہیں۔ جبکہ خود سرکاری ملازمین ہوتے ہیں۔ اور اس مہنگے تعلیمی اداروں نے تعلیم کے معیارات کو مختلف بناکر رکھ دیا ہے کہ غریب کے بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرے اور امیروں مالدار کے بچے انٹرنیشنل اسکولوں میں تعلیم حاصل کرے۔
ایک دور وہ بھی تھا اساتذہ کی سوچ کس قدر اعلی معیار کی تھی جو صرف علم ہی نہیں فراہم کرتے تھے بلکہ بچوں میں اخلاقی اقدار کو فروغ دیا کرتے تھے۔ اور اپنی زندگی میں ان اخلاقی صفات کو عملی طور پر اپناتے تھے۔ لیکن آج نا استاذ کی وہ عزت و احترام کیا جاتا ہے جو آج سے 4، 5 دہائی پہلے ہوا کرتا تھا اگر استاد کہی باہر نظر آجاتے تو طلباء انہیں سلام کیا کرتے تھے۔ انکا اکرام کیا کرتے تھے۔ خلیفہ ہارون الرشید کا ایک واقعہ لکھا ہے،
خلیفہ ہارون الرشید نے دیکھا کہ اس کا بیٹا اپنےاستاد کو وضو کروا رہا ہے اور لوٹے سے اپنے استا د کے پا ؤں پر پانی ڈال رہا ہے ، ہارون الرشید یہ دیکھ کر بہت برھم ہوئے اور اپنے بیٹے کو خوب ڈانٹا ،
استاد نے کہا :
’’نماز کا وقت جا رہا تھا تو اس لئے میں نے شہزادے کو زحمت دی ۔‘‘
خلیفہ ہارون الرشید نے کہا:
’’میں تو اس لئے ناراض ہو رہا ہوں کہ شہزادے کا ایک ہا تھ خالی تھا ، تو وہ اس ہاتھ سے آپ کےپا ؤں کیوں نہیں دھوتا ‘‘
یہ تھا استاد کا مقام و مرتبہ لیکن آج حالات عجیب روخ اختیار کر چکے ہیں، ایک تو حکومت کی طرف سے لکڑی کا استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی گئی اور والدین زرا زرا بات پر استاد سے جھگڑا کرنے آجاتے ہیں۔ اساتذہ کی سوچ کا یہ عالم تھا، انکی اخلاقی اقدار اتنے بلند تھے کہ جس کی پیدائش پر ہم بھارت میں یوم اساتذہ کے دور مناتے ہیں۔ وہ سرو پلی رادھا کرشنن ہے۔ ایک مرتبہ انکے پاس نرگس دت جو ایکٹر تھی کو راجہ سبھا کی رکنیت دینے کی تجویز پیش کی گئی تو انہوں اس پر فوراً اپنا اعتراض جتایا کہ اس اقدام سے نوجوانوں کے اخلاق بری طرح متاثر ہوگے، یہ اعتراض جدید بھارت کے سیاسی دور سے بلکل مختلف ہیں۔ کہ آج ایسے افراد کو وزارت کی کرسیاں دی جارہی ہے جو دہشت گرد ہے۔ جو زانی ہے۔ جو شرابی اور دھوکے باز ہے۔ جو اپنے مفادات کی خاطر ملک کی سلامتی کو بھی بلائے طاق رکھ دیتے ہیں۔