ادبی دنیانثر

مجھےشادی نہیں کرنی تھی۔۔۔ ایک ہی دن میں 2دستخط 2 پیپر

مراسلہ: ذوالقرنین احمد

چار سال گُزر گئے آج پھر ان قبروں پر آکر بیٹھ گیا تین قبریں ہیں اور میں درمیان والی پے بیٹھا ہوں…
وہ وقت پھر سے یاد آرہا ہے جب میں شیروانی میں تھا….
یار پلیز میرا گریبان چھوڑ دو کوئی دیکھ لے گا وہاں کمرے میں میری بیوی انتظار کررہی ہے

چُپ—-ایک دم چُپ…یہ بیوی کے الفاظ تمہارے منہ سے نکلے کیسے،، ابھی میں زندہ تھی میں مری نہیں تھی تم نے میرے ہوتے میرے سامنے تم کسی اور کے ہو گئے یار میں کدھر جاؤں قسم سے مر جاؤنگی یار سمجھنے کی کوشش کرو— اس نے مزید میری شیروانی کا گلا پکڑ کر روتے ہوئے جنجھوڑا….

فائزہ پلیز چُپ ہوجاؤ یار پلیز میں مجبور تھا تمہیں پتا جب میں نے اس رشتےسے انکار کیا تو انہوں نے کہا تھا کے اگر ہمارا ہوتا تو ایسے رشتا نا ٹھکراتا فائزہ یہ بات میرے دل پے لگی تھی

بھاڑ میں گیا تمہارہ دل میری زندگی ختم آج —-میں تمہیں آج اسکے بستر پر نہیں جانے دونگی تم گئے اسکے پاس تو میرا مری کا منہ دیکھو گے ——-
پاگل ہوگئ ہو ادھر بیٹھو میں پانی لے کے آتا تمہارے لیے…

میں پانی لینے کے لیے اندر داخل ہوا سب کزنوں نے میرا گھیراؤ کر لیا سب لوگ خوش تھے بہت ایک میرے اعلاوہ میں آج ایک ایسی شادی کر لی جس سے میں کبھی خوش نہیں رہ پاؤنگا…

ویسے لڑکوں کا کیا ہوتا مشہور ہے لڑکوں کے بارے میں کے انکو بس لڑکی چاہیے پر آج میں چیخ چیخ کے بتانا چاہتا تھا کے ایک لڑکے کا دل ٹوٹا ہے رشتوں کو نباہتے ہوئے آج ایک لڑکا ریزہ ریزہ ہوگیا…

کزنوں کے شور میں اس پاگل کملی جھلی کو بھول گیا میں اسکے لیے پانی لینے آیا تھا سب نے مذاق کرتے ہوئے مجھے میرے کمرے میں داخل کردیا جہاں ایک لڑکی دُلہن بنی میرے انتظار میں تھی جو بہت سج سنور کے بیٹھی تھی…

جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا مجھے ایک شور سنائی دیا میں اسی وقت پیچھے پلٹا بھاگ کر جا کے دیکھا تو کوئی زمین پر تڑپ رہا تھا ہاں یہ وہی کملی جھلی تھی جو آپنی آخری سانسیں لے رہی تھی….

یقین کرو آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا تھا ہائے میری جان میں نے بھاگ کر گود میں اٹھایا اور زور سے چیخا گاڑی نکالو ……. گاڑی کی پیچھے والی سیٹ پے لیٹاتے ہی پلٹا تو آنکھوں سامنے اندھیرا سا آگیا اور گِر پڑا….

جلدی سے اٹھا گاڑی میں بیٹھا اور اسکے سر کو گود میں لیا——-فائزہ——فائزہ —- دو بار نام پکارنے کے بعد میری آواز گلے میں اٹک گئ——اف—–پے ہی آواز رک گ اسکے منہ سے جھاگ آنے لگی اسکا تڑپنا اب بند ہوچکا اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے بھی بند ہوگئے تھے…

ہسپتال کی ایمرجنسی میں سٹیچر کا انتظار نا کرتے ہوئے میں اسے گود میں اٹھا کے لے گیا اسکا بازو لٹکا ہوا جھول رہا تھا…

بیڈ پر لیٹاتے ہی سب ڈاکٹر جمع ہوگئے پھر ایک لڑکی کاٹن بینڈج سے اسکے پاؤں کے انگوٹھے باندھنے لگی میں یہ سب برداشت نا کر پایا تو میرے کزن نے مجھے پکڑا اور بیٹھا دیا…

میرے آنسو تھم گئے تھے مجھے رونا نہیں آرہا تھا آنسو ہی رُک گئے…..
آج یار مر گیا میرا اور آنسو بھی نا نکلے یہ تو نا انصافی تھی یار کے ساتھ….

پھر ایک لڑکی میری طرف آئی کہنے لگی سر یہاں پر آپنے سائین کردیں—- دن وہی تاریخ وہی بس وقت تبدیل تھا جب میں نے ایک ہی دن میں ایک کے نکاح نامے پے سائین کیے تھے اور ایک کے ڈیتھ سرٹیفیکٹ پر سائین کیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!