اٹھو نا! مجھے تمہاری ضرورت ہے۔
اسری غوری
مراسلہ: ذوالقرنین احمد
وہ ایمرجنسی وارڈ میں میرے سامنے والے بیڈ پر ہوش و حواس سے بلکل بیگانہ تھی، ساتھ جو اٹینڈنٹ تھا، وہ مستقل بے جان ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں دبائے تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کے کان کے پاس جا کر کہتا
’’اٹھو نا! مجھے تمہاری ضرورت ہے.‘‘
اس کے لہجے میں موجود درد اور تڑپ اس کے سچا ہونے کی گواہ تھی۔ اتنے میں ڈاکٹر بھی راؤنڈ پر آپہنچے، دو بیڈ پہلے مریض کو چیک کرتے ہوئے وہ کئی بار اس کی آواز پر پلٹے اور اسے دیکھا، مگر وہ تو ہر چیز سے بے نیاز تھا. بکھرے بال ملجگے کپڑے، ایسا لگتا تھا جیسے اسے اس وقت زمین پر صرف ایک ہی وجود کے ہونے کا احساس ہے اور وہ اسی میں گم تھا۔۔
میں حیران حیران سی نرس کی جانب دیکھنے لگی۔
میری حیرانی بھانپ کر نرس نے میری مشکل حل کرنے کی کوشش کی مگر وہ اپنی اس کوشش سے مشکل میں اضافہ کرگئی.
میڈم یہ اس کی بیوی ہے یہ چھ ماہ سے کومہ میں ہے اور یہ لڑکا بھی چھ ماہ سے اسی طرح دنیا سے بے خبر اسی طرح اس کو یہی کہتا رہتا ہے، ابھی اس کے گھر والے آئیں گے، اور اس لڑکے کو زبردستی کچھ کھلائیں گے، ایک دو دن بعد زبردستی اس کو کپڑے بدلواتے ہیں، جب تک اس کو یہاں سے کوئی نہ اٹھائے، یہ نہیں اٹھتا، ایسے ہی ہاتھ میں ہاتھ دبائے اس لڑکی کے کان میں یہی جملہ دہراتا رہتا ہے۔
میڈم میں نے ایسی سچی محبت آج تک نہیں دیکھی۔ ڈاکٹرز کہتے اس کا کومہ سے نکلنا بہت مشکل ہے۔
مگر میڈم یہاں وارڈ کا ہر ہر بندہ یہی دعا کرتا ہے کہ اللہ کرے اس کو ہوش آجائے، ورنہ یہ لڑکا بھی یونہی جان دے دےگا۔
پھر اک دم آواز آئی
’’اٹھو نا مجھے تمہاری ضرورت ہے.‘‘
’’اٹھو نا مجھے تمہاری ضرورت ہے.‘‘
آج اسے مشکل سے سب گھر والے مل کر گھر لائے تھے تاکہ وہ کپڑے تبدیل کرلے، ابھی وہ نہا کر نکلا ہی تھا، بال بنانا تو وہ اس دن سے ہی بھول چکا تھا جس دن سے شانی کومہ میں گئی تھی۔
دروازے پر آہٹ ہوئی، اس نے مڑ کر دیکھا تو راجو بابا تھے۔
رضا صاحب آپ کو بابا نے سٹڈی روم میں بلایا ہے۔
وہ جانتا تھا اس کے سب سے بڑے راز داں بابا ہی تھے۔
شانی اور اس کی اکثر یہی بحث ہوا کرتی تھی، شانی کہتی کہ اس کے بابا دنیا کے سب سے اچھے بابا ہیں جبکہ رضا کہتا اس کے بابا سے اچھا کوئی ہے ہی نہیں۔
اور دونوں کی بحث جب بڑھ جاتی تو بابا کو درمیان میں آنا پڑتا اور بابا اس کا حل یوں نکالتے کہ بھئی تم دونوں کے بابا جو بہترین دوست ہیں تو دونوں ہی اچھے ہوئے نا۔
انھی سوچوں میں گم وہ سٹڈی روم کے سامنے تھا، دروازہ ناک کیے بغیر ہی اندر جاچکا تھا۔
بابا نے اسے دیکھا تو دل دکھ سے بھر گیا تھا، ایسا تو نہ تھا ان کا رضا، چوڑے شانوں والا، ہنستے چہرے کے ساتھ ہمیشہ ہشاش بشاش نظر آنے والا، یہ وہ رضا تو نہیں تھا.
بابا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ وہ پھٹ پڑا۔
بابا وہ نہیں اٹھتی بابا،
بابا وہ مجھ سے نہیں بولتی،
میری باتوں کا جواب نہیں دیتی بابا،
اس سے کہیں نا، ایک بار اٹھ جائے، بس اک بار،
میں اسے پھر کبھی کوئی دکھ نہیں دوں گا،
بابا ایک بار بس ایک بار،
بابا وہ میرا اعتبار نہیں کرتی بابا۔
اس کے منہ سے جملے ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھے،
وہ کسی چھوٹے سے بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا
وہ ایمرجنسی وارڈ میں میرے سامنے والے بیڈ پر ہوش و حواس سے بلکل بیگانہ تھی، ساتھ جو اٹینڈنٹ تھا، وہ مستقل بے جان ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں دبائے تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کے کان کے پاس جا کر کہتا
’’اٹھو نا! مجھے تمہاری ضرورت ہے.‘‘
اس کے لہجے میں موجود درد اور تڑپ اس کے سچا ہونے کی گواہ تھی۔ اتنے میں ڈاکٹر بھی راؤنڈ پر آپہنچے، دو بیڈ پہلے مریض کو چیک کرتے ہوئے وہ کئی بار اس کی آواز پر پلٹے اور اسے دیکھا، مگر وہ تو ہر چیز سے بے نیاز تھا. بکھرے بال ملجگے کپڑے، ایسا لگتا تھا جیسے اسے اس وقت زمین پر صرف ایک ہی وجود کے ہونے کا احساس ہے اور وہ اسی میں گم تھا۔۔
میں حیران حیران سی نرس کی جانب دیکھنے لگی۔
میری حیرانی بھانپ کر نرس نے میری مشکل حل کرنے کی کوشش کی مگر وہ اپنی اس کوشش سے مشکل میں اضافہ کرگئی.
میڈم یہ اس کی بیوی ہے یہ چھ ماہ سے کومہ میں ہے اور یہ لڑکا بھی چھ ماہ سے اسی طرح دنیا سے بے خبر اسی طرح اس کو یہی کہتا رہتا ہے، ابھی اس کے گھر والے آئیں گے، اور اس لڑکے کو زبردستی کچھ کھلائیں گے، ایک دو دن بعد زبردستی اس کو کپڑے بدلواتے ہیں، جب تک اس کو یہاں سے کوئی نہ اٹھائے، یہ نہیں اٹھتا، ایسے ہی ہاتھ میں ہاتھ دبائے اس لڑکی کے کان میں یہی جملہ دہراتا رہتا ہے۔
میڈم میں نے ایسی سچی محبت آج تک نہیں دیکھی۔ ڈاکٹرز کہتے اس کا کومہ سے نکلنا بہت مشکل ہے۔
مگر میڈم یہاں وارڈ کا ہر ہر بندہ یہی دعا کرتا ہے کہ اللہ کرے اس کو ہوش آجائے، ورنہ یہ لڑکا بھی یونہی جان دے دےگا۔
پھر اک دم آواز آئی
’’اٹھو نا مجھے تمہاری ضرورت ہے.‘‘
’’اٹھو نا مجھے تمہاری ضرورت ہے.‘‘
آج اسے مشکل سے سب گھر والے مل کر گھر لائے تھے تاکہ وہ کپڑے تبدیل کرلے، ابھی وہ نہا کر نکلا ہی تھا، بال بنانا تو وہ اس دن سے ہی بھول چکا تھا جس دن سے شانی کومہ میں گئی تھی۔
دروازے پر آہٹ ہوئی، اس نے مڑ کر دیکھا تو راجو بابا تھے۔
رضا صاحب آپ کو بابا نے سٹڈی روم میں بلایا ہے۔
وہ جانتا تھا اس کے سب سے بڑے راز داں بابا ہی تھے۔
شانی اور اس کی اکثر یہی بحث ہوا کرتی تھی، شانی کہتی کہ اس کے بابا دنیا کے سب سے اچھے بابا ہیں جبکہ رضا کہتا اس کے بابا سے اچھا کوئی ہے ہی نہیں۔
اور دونوں کی بحث جب بڑھ جاتی تو بابا کو درمیان میں آنا پڑتا اور بابا اس کا حل یوں نکالتے کہ بھئی تم دونوں کے بابا جو بہترین دوست ہیں تو دونوں ہی اچھے ہوئے نا۔
انھی سوچوں میں گم وہ سٹڈی روم کے سامنے تھا، دروازہ ناک کیے بغیر ہی اندر جاچکا تھا۔
بابا نے اسے دیکھا تو دل دکھ سے بھر گیا تھا، ایسا تو نہ تھا ان کا رضا، چوڑے شانوں والا، ہنستے چہرے کے ساتھ ہمیشہ ہشاش بشاش نظر آنے والا، یہ وہ رضا تو نہیں تھا.
بابا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ وہ پھٹ پڑا۔
بابا وہ نہیں اٹھتی بابا،
بابا وہ مجھ سے نہیں بولتی،
میری باتوں کا جواب نہیں دیتی بابا،
اس سے کہیں نا، ایک بار اٹھ جائے، بس اک بار،
میں اسے پھر کبھی کوئی دکھ نہیں دوں گا،
بابا ایک بار بس ایک بار،
بابا وہ میرا اعتبار نہیں کرتی بابا۔
اس کے منہ سے جملے ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھے،
وہ کسی چھوٹے سے بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا.
یہ بھی پڑھیں: مرد مضبوط سائبان اور محافظ – اریشہ خان
بابا نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا اور رونے دیا، وہ کب سے نہیں رویا تھا پتھر ہوگیا تھا۔
بہت دیر رونے کے بعد بابا اس کا سر سہلاتے ہوئے بولے:
رضا بیٹا یہ جو محبت اور نفرت ہوتی ہے نا، یہ اپنا اثر لازمی چھوڑتی ہے، یہ کبھی بھی بے اثر نہیں ہوا کرتی، یہ کبھی فضا میں تحلیل نہیں ہوا کرتی، اس کی شعائیں اپنے مطلوب تک بہرصورت پہنچ کر رہتی ہیں، کبھی بہت جلد اور کبھی کچھ وقت ضرور لگتا ہے مگر یہ کبھی بھی ناکام نہیں لوٹتیں۔
ہوتا یہ ہے کہ ہمارے اپنے رویوں، اپنے لہجوں، اپنے تلخ جملوں کی منفی شعاعوں نے پہلے سامنے والے کے گرد اک حصار کھینچ رکھا ہوتا ہے جو ہماری محبت کی شعاعیں اس تک نہیں جانے دیتا، اور ہم اس کو بعد میں محبت کی شعائیں بھیج کر چاہتے ہیں کہ آنکھ جھپکتے ہی محبت کی شعاعیں اپنا اثر دکھادیں۔ ایسا نہیں ہوتا بیٹا جان۔ جب تک محبت کی شعاع اک اک منفی شعاع کو قتل نہ کر دے، تب تک محبت اپنے اسی رنگ روپ میں واپس نہیں آسکتی۔
مگر بابا آپ تو جانتے ہیں، میں شانی سے کس قدر محبت کرتا ہوں۔ رضا نے تڑپ کر احتجاجا کہا،
بابا نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور بولے:
رضا! یہ جو ہم لوگ محبت کا پودا لگا کر کر سمجھتے ہیں نا کہ اب محبت کا یہ پودا بس زندگی بھر خود بخود پروان چڑھتا رہے، اور ہم پلٹ کر اس کی خبر بھی نہ لیں، مگر یہ ہم پر کڑی دھوپ میں سایہ بھی کرے اور ہر پریشانی اور تکلیف میں ہمیں اپنی آغوش میں بھی چھپا لے۔ بس یہیں ہم غلطی کرجاتے ہیں۔
محبت کے پودے کو جتنی محنت سے لگایا جاتا ہے، اس سے بھی زیادہ محنت اور توجہ سے اس کی آبیاری کی جاتی ہے، اس کے لیے خاص وقت نکال کراس کے گرد اگنے والی ہمارے رویوں کی جھاڑ جھنکار سے اسے صاف کیا جاتا ہے، توجہ اور اظہار کی گوڈی کی جاتی ہے، یقین اور اعتبار کے چشموں کے پانی سے اسے سیراب کیا جاتا ہے، اسے پل پل یہ احساس دلانا پڑتا ہے کہ ہمیں اس کی ضرورت ہے، ہم اس کے بغیر ادھورے ہیں۔
جب ہم یہ سب کرتے رہتے ہیں تو ہی محبت کا وہ ننھا سا پودا باہر ایک تناور درخت کی صورت میں جہاں ہمیں اپنی ٹھنڈک پہنچانے کے قابل ہوجاتا ہے، وہیں اندر ہی اندر اس کی جڑیں اس قدر مظبوط ہوجاتی ہیں کہ پھر بڑے بڑے طوفانوں میں بھی وہ جڑیں اپنی جگہ نہیں چھوڑتیں۔ مگر اس کے لیے محبت کو ہمیشہ پہلے دن جیسی توجہ اور اظہار دینا پڑتا ہے۔
تم جانتے ہو، شانی میرے سب سے عزیز دوست کی بیٹی ہے، اور وہ زندگی کے جس دکھ سے گزری، اس کے بعد اس نے خود پر خوشیوں کا ہر در بند کرلیا تھا۔
تمھاری ضد اور بقول تمھارے تمھاری محبت۔
رضا نے بابا کے اس جملے پر درد سے تڑپ کے ان کو دیکھا جسے وہ نظر انداز کرگئے۔
میں نے سعادت حسین سے کتنی منتیں کیں، شازینہ بٹیا کو کس طرح آمادہ کیا، وہ سب تم جانتے تھے۔
پھر اس کے بعد تمھارا بدلا ہوا رویہ، تمھارے لہجے کی کاٹ نے اسے کب کب اور کیسے کہاں کہاں زخمی کیا۔
اس نے گھر کے کسی فرد سے لے کر مجھ تک کو کبھی نہ پتا لگنے دیا کہ اسے خون کی یہ الٹیاں کب سے ہو رہی ہیں، وہ کس بیماری میں مبتلا ہے، اس تکلیف کو بھی وہ تنہا سہتی رہی، اگر اس دن وہ سیڑھیوں سے نہ گرتی اور ہم اس کے کپڑون پر لگے خون کے سرخ دھبے نہ دیکھ لیتے تو وہ ایسے ہی خاموشی سے کسی دن ختم ہوچکی ہوتی۔ اور تم جس آس کو چھ مہینے سے تھامے ہوئے ہو، وہ بھی نہ ملتی، تمھارے آنے تک تو وہ کب کی جا چکی ہوتی.
ایسے تو نا کہیں بابا۔ ایک بار اس سے کہیں، ایک بار میرا اعتبار کرلے بابا، میں کبھی اسے کوئی دکھ نہیں دوں گا بابا، کبھی بھی نہیں۔
رضا پھر ایک بار سسک رہا تھا،
بابا آپ کہتے نا، الفاظ اپنا اثر ایک دن ضرور دکھاتے ہیں، چاہے سامنے والا شدید نفرت ہی کیوں نہ کرتا ہو۔ اگر ہم سچے ہوں تو ایک دن وہ بھی محبت پر مجبور ہوجاتا ہے۔
بابا شانی تو مجھ سے محبت کرتی تھی، بابا اس نے میرے ساتھ ایک بار پھر زندگی کو جینا سیکھا تھا۔
اور تم نے اسے زندگی دے کر پھر سے چھین لی۔
پتا ہے رضا تم نے اس کے ساتھ کیا کیا؟
وینٹیلٹر پر پڑے اس وجود کی طرح جس میں آکسیجن لگاتے ہی زندگی کی رمق آنے لگ جائے اور پھر اچانک اس سے وہ آکسیجن چھین لی جائے، اور تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے، تم نے شانی کے ساتھ یہی کیا۔ بابا نے اس کے جملے کو کاٹ کر تلخی سے کہا۔
بابا۔۔۔!! رضا اس حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے ٹوٹ چکا تھا۔
وہ جانتا تھا بابا بھی خاموش آنسووؤں سے رور رہے تھے، وہ ان کے جگری دوست کی بیٹی، اسے وہ بچپن سے ہی بیٹیوں کی طرح چاہتے تھے۔
اس کی زندگی کی ہر ہر تکلیف سے بابا ایسے ہی واقف اور دکھی تھے جیسے انکل سعادت حسین ۔
بابا وہ اٹھ جائے گی نا؟۔ رضا نے کسی معصوم بچے کی طرح خوفزدہ لہجے میں پوچھا۔
رضا اک سوال خود سے پوچھو۔ کیا تمہیں اس سے واقعی سچی محبت ہے؟
بابا ۔۔! رضا نے دکھ سے باپ کی جانب دیکھا۔
اپنے آپ کو اچھی طرح کھنگالو رضا، اور پھر دیکھو کیا جواب آتا ہے۔
بابا مجھے اس سے محبت ہے، سچی محبت، بابا میں نہیں جی سکتا اس کے بغیر۔
بابا مجھے بہت سارے قرض چکانے ہیں۔
جاؤ پھر جو دہراتے ہو، وہی دہراتے رہو کہ لفظ کبھی ضائع نہیں ہوتے، اور رب کبھی مایوس نہیں کرتا۔
جاؤ تمھاری شانی اک دن ضرور اٹھے گی۔ ان شاءاللہ