سماجیمضامین

امنِ عالم اور اسلام

ابومعاذ

اگر ہم تاریخِ عالم پر غور کریں تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ سیاسی مفکرین اور انسانیت کے بہی خواہوں نے امنِ عالم اور آپسی بھائی چارے کے لئے نت نئے قوانین وضع کئے، مختلف ناحیوں سے اس پر غورکیا، بہت سے سنجیدہ مباحثے ہوئے، عالمی کانفرنسیں منعقد ہوئیں لیکن ان تمام تر کوششوں کا کوئی خاطر خواہ فائدہ سامنے نہیں آیا ۔ذیل میں تین قدیم سلطنتوں کے تصور وحدتِ بنی آدم کی مختصر سی کہانی پیش کی جا رہی ہے:

قدیم یونان میں شہری مملکتوں کا ایک دوسرے کےساتھ برابری کا برتاؤ تھا اور ہر مملکت دوسری مملکت میں اپنا سفیر رکھتی تھی، جب یہ مملکتیں ایک دوسرے سے جنگ کرتیں توپہلے اعلانِ جنگ کر دیا جاتا تھا، جنگ کے دوران عبادت خانے محفوظ و مامون ہوتے تھے، لیکن غیر یونانیوں کو غیر مہذب سمجھا جاتا تھا اور ان کو غلام بنا کر رکھا جاتاتھا جنہیں شہری حقوق حاصل نہیں تھے ۔
یونانیوں کے بعد رومیوں کا دور شروع ہوا انہوں نے ایک عظیم الشان سلطنت قائم کی جس کی حدود ایشیاء، افریقہ اور یورپ تینوں برِّاعظموں میں پھیلی ہوئی تھی۔یہ اپنے بالمقابل کسی کو شمار میں نہیں لاتے تھے پھر بھی بعض بین الملکی قوانین تھے جن پر عمل ہوتا تھا جیسے کسی دوسری مملکت کے سفیر کی جان کو تحفظ کی ضمانت دینا، اگر کوئی رومن کسی غیر ملکی سفیر کے ساتھ بد سلوکی کرتا تو اس شخص کو اس سفیر کے ملک کے حوالے کر دیا جاتا ۔جنگ صرف اس صورت میں جائز سمجھی جاتی تھی جب کہ کوئی دوسرا ملک ان پر حملہ کرے، یا عہد ناموں کی خلاف ورزی کرے یا رومن سلطنت کے دشمنوں سے جا ملے۔اس سلطنت میں مختلف نسلوں اور قوموں کے لوگ رہتے تھے ان سب کے لئے ایک ہی قانون تھا جسے jusgentium کہا جاتا تھا اسی قانون کے بہت سے اصول موجودہ بین الملکی قانون میں پائے جاتے ہیں. اس طرح رومن عہد میں پہلی دفعہ مختلف ملکوں کے لوگوں کو ایک ہی قانون کے تحت لانے کی کوشش کی گئی. یہ صرف رومن سلطنت کی حدود ہی تک محدود تھا.

رومن عہد کے بعد اسلام کا زمانہ شروع ہوا،اسلام دنیا میں وہ پہلی آواز تھا جس نے الٰہی تعبد کی وحدت پر ایک عالمگیر اخوت کا نعرہ دیا۔اور یہی وجہ تھی تمام کرّہ ارض پر سراپا اجنبیت کے عالم میں جنم لینے والا یہ مذہب انتہائی قلیل مدت میں دنیا کے ایک وسیع خطے پر اپنی حکمرانی قائم کر نے میں کامیاب رہا۔اسلام نے دین کی جو کلیات بیان کیں دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے ۔

اسلام نے تمام تر خون اور نسل کے باندھے ہوئے پیمانِ وفا ومحبت کو توڑ کر ایک الہِ واحد کی بندگی پر متحد ہو جانے کی دعوت دی.

اسلام ایک عالمی مذہب ہے ۔جورنگ و نسل کی بنیاد پر کسی طرح کی تفریق وامتیاز کا ہر گز روادار نہیں ۔نہ وہ کسی خاص جغرافیائی علاقے سے تعلق رکھنے والے کا مذہب ہے اور نہ کسی خاص زبان کے بولنے والے کا۔بلکہ وہ ایک الٰہی ہدایت و کامرانی کا سرچشمہ ہے جو تمام انسانیت کے لئے یکساں مقام رکھتا ہے ۔نہ اس کا کوئی خاص دیس ہےنہ زبان، نہ کوئی رنگ ہے نہ نسل ۔وہ تمام انسانی برادری کو ایک ماں اور باپ کی اولاد مانتا ہے ۔
بین الاقوامی تعلقات کو ہموار کرنے کے لئے اسلام نے جو رہنما اصول پیش کئےوہ رہتی دنیا تک کے لئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اور دراصل انہیں اصولوں کی بدولت یہ دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن سکتی ہے اور یہ پوری انسانی برادری چین وسکون کا سانس لے سکتی ہے۔


حجة الوداع کے موقع پر اللہ کے رسولؐ نے فرمایا:
ایھا الناس! ان ربكم واحد وان اباكم واحد، كلكم من آدم وآدم من تراب، ان اكرمكم عند الله اتقاكم، ليس لعربى فضل على عجمى الا بالتقوى”

اسلامی حکومت کے زوال کے بعد جب ایک مرتبہ پھر بد امنی عام ہوئی، اور زیردستوں کا کوئی پرسانِ حال نہ رہا اس وقت نام نہاد انصاف پسندوں نے امن وامان کو بحال رکھنے کے لئے کیا کوششیں کیں. ذیل میں اس کی مختصر سی تاریخ پیش کی جارہی ہے:

انیسویں صدی کے آخر میں زار روس نے بین الملکی تعلقات کو ہموار کرنے کے لئے دو اہم عالمی کانفرنس ہالینڈ کے دارالسلطنت ہیگ میں طلب کی. اس میں بہت سی سلطنتوں نے شرکت کی اور انہوں نے ایسے سمجھوتوں پر دستخط کئے جن کی روسے ایک مستقل بین الملکی عدالت قائم کی گئی اور یہ طے پایا کہ ہر دستخط کنندہ ملک اپنے مستقل جج مقرر کرلے تاکہ بوقت ضرورت وہ اپنے جھگڑے اور قصے اس عدالت کے سامنے پیش کر سکے. لیکن 1905ء میں روس اور جاپان کی لڑائی نے امن عالم کے اس منصوبے کوخاک میں ملا دیا.

بعد ازاں 1918میں پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے پر امریکہ کے صدر ولسن کے نظریئے کے مطابق ایک بین الملکی تنظیم “انجمن اقوامleague of nations”کا قیام عمل میں آیا ۔لیکن 1930کے بعد سے اس انجمن کا زوال شروع ہوا اسی زمانے میں سوویٹ یونین کو زیادہ مضبوطی حاصل ہوئی اور دوسری طرف جرمنی اور اٹلی میں ہٹلر اور مسولینی کی ڈکٹیٹر شپ شروع ہوئی اور ایک نئی قسم کی مملکت کا آغاز ان دونوں ملکوں میں ہوا جسے کلیت(Totalitarianism) کہا جاتا ہے یہی صورت سوویٹ روس کی بھی تھی ۔ان طاقتوں کی وجہ سے بین الملکیت(Internationalism) کو زبردست نقصان پہنچا۔

1935 میں مسولینی نے انجمن کے ایک دوسرے ممبر یعنی حبش پر حملہ کر دیا اور اسے ختم کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا اور انجمن اس کے خلاف کچھ نہ کر سکی جس سے یہ انجمن بالکل کمزور ہوگئی اور اس کا رہا سہا اثر بھی جاتا رہا اور پھر دوسری جنگِ عظیم نے اس انجمن کا پورے طور سے خاتمہ کردیا
انجمن اقوام کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی اس کے ممبر ہمیشہ اپنے ملک کے مفاد یا قومی مفاد کو سامنے رکھتے تھے اور بین الملکی مفاد کو بالکل نظر انداز کر دیتے تھے ۔دوسری بڑی کمزوری انجمن اقوام کی یہ تھی کہ بڑی طاقتیں ہمیشہ خودغرضی سے کام لیتی تھیں اور اس کے لئے وہ بین الملکی اصولوں کو بالکل ٹھکرا دیتی تھیں ۔تیسری بڑی خرابی انجمن اقوام میں یہ تھی کہ یہ شروع سے ہی ایک کمزور جماعت تھی ۔کیونکہ اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا جس سے وہ اپنی بات دوسری مملکتوں سے منوا سکے۔

دوسری جنگِ عظیم انسانوں کے قتل وخون، غارتگری، حیوانیت، بربریت اور اپنے مہلک اثرات کے اعتبار سے پہلی جنگِ عظیم سے کہیں زیادہ آگے نکل چکی تھی ۔جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ دوبارہ یہ خیال پیدا ہوا کہ کوئی ایسی بین الملکی تنظیم وجود میں آئے جو سب پر اپنا دباؤ بنائے رکھے اور بڑی اور مضبوط مملکتیں کمزور مملکتوں پر کسی طرح کا ظلم نہ کر سکیں اور امنِ عالم متاثر نہ ہو ۔

دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر فرانس تو جرمنی کے زیرِ اثر رہا باقی چار بڑی طاقتوں کے نمائندے یعنی ریاست ہائے متحدہ امریکہ، انگلستان، سوویٹ روس، اور چین 1944میں ڈمبرٹن اوکس میں جمع ہوئے اور انہوں نے ایک بین الملکی ادارے یا انجمن کا مینی فیسٹو تیار کیا جسے جون 1945میں 51 ملکوں نے منظور کیا اور ایک نئے بین الملکی ادارے کی بنیاد پڑی جو (United Nations Organization )کے نام سے موسوم ہوا۔اس ادرہ کا بنیادی مقصد دنیا کو جنگ کی لعنت سے بچانا اور ساتھ ہی ساتھ معاشی، سماجی، تمدنی اور دوسرے انسانی مسئلوں کو بین الملکی ادارے کے ذریعے حل کرنا تھا ۔ اس ادارے کا ایک اہم شعبہ حفاظتی کونسل (security council) ہے ۔اس شعبے کے کل گیارہ ممبر ہوتے ہین جن میں پانچ مستقل ممبر ہیں اور چھ کا انتخاب دودو سال کے لئے اسمبلی کرتی ہے ۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ، برطانیہ، سوویٹ روس، فرانس اور چین اس کے مستقل ممبر ہیں۔

کسی غیر اہم یا معمولی مسئلے کا فیصلہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ گیارہ ممبران میں سے کم از کم سات ممبران اس کے لئے راضی ہوں ۔اور کسی اہم مسئلے پر کونسل اسی وقت فیصلہ کر سکتی ہے جب کہ پانچوں مستقل ممبران اس کےموافق ہوں ۔اگر کوئی بھی طاقت مسئلے کے خلاف رائے دے تو کونسل فیصلہ نہیں کر سکتی۔اس کو ویٹو پاور (Veto Power) یا حقِ استراد یا تنسیخ کہتے ہیں یعنی ایک طاقت کی رائے کونسل کے فیصلے کو روک سکتی ہے ۔روس پچاس سے زیادہ دفعہ اس حق کا استعمال کر چکا ہے ۔اور بہت سے ممالک اس میں شامل نہیں ہو سکے جیسے کمیونسٹ چین کیونکہ امریکہ نےاپنا حقِ تنسیخ استعمال کیا اور اس بناء پر ان ملکوں کو ادارے سے باہر رکھا گیا ۔ویٹو پاور کا حق امن پسند ملکوں کے لئے مستقل مصیبت بن گیا اور اس وجہ سے ادارہ بالکل کمزور ہو گیا ہے اور بین الملکی تعلقات کو استوار کر نے میں ناکام ہے جیسے کشمیر کا مسئلہ اب تک کونسل طے نہیں کرسکی ہے.

خلاصہ یہ کہ انسان خواہ کتنی ہی ترقی کرلے، ایجادات واختراعات کی جن بلندیوں کو چاہے چھولے لیکن جب بھی وہ وحی الٰہی سے دور ہوگا اور جس قدر دور ہوتا جائے گا انسانیت کی اس معراج عظیم سےگرتاجائے گا جو اسے اشرف المخلوقات ہونے کی بناء پر ملی تھی.

انسان کی اس بے چارگی و بے بسی کا سب سے بڑا مظہر صنفِ عورت کی داستانِ مظلومیت ہے. کائنات کے عالمی نقشہ پر نہ جانے کتنے تمدن اپنی روشن خیالیوں کا علم اٹھائے نمودار ہوتے رہے لیکن آج تک وہ عورت کا سماجی، خاندانی اور معاشرتی مقام متعین کرنے میں پوری طرح سے ناکام رہے.

بعض سیاسی مفکرین جن میں روسو(سب سے زیادہ قابلِ ذکر ہے) کا خیال تھا کہ قانون سازی بالا فطری ہستیوں ہی کا حصہ ہو سکتی ہے۔

                                            

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!