مسلمانو! آپ اللہ کے بن جائیں، اللہ آپ کا بن جائے گا: مولانا یوسف اصلاحی
مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب رکن مرکزی مجلس شوری جماعت اسلامی ہند و مصنف آدابِ زندگی نے مسجد عزیزیہ ہمایوں نگر ،حیدرآباد میں خطاب کرتے ہوئے کہا کے ہمارا ایمان ہے کہ رسول ﷺ کی باتیں سچی ہیں اور آپ ﷺ نے سچ فرما یا ہے کہ :مسلمانوں تم پر ایک ایسا دور آئے گا کہ تمام امتیں تم پر ٹوٹ پڑیں گی، جس طرح بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں، لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسولۖ کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہونگے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں تم تعداد میں بہت زیادہ ہوں گے لیکن تمہیں ایک بیماری لگ جائے گی وہ یہ کے تمہارے دلوں میں دنیا کی محبت اور موت کا ڈر پیدا ہو جائے گی۔
اس فرمان نبیۖ کی روشنی میں حالات کا جائزہ لیجیے کیا اس وقت یہی حالات نہیں ہیں ۔
انہوں نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے کہاکہ اس دنیا میں اس امت کو قیامت تک رہنا ہے اس کو کوئی مٹا نہیں سکتا، اس کی دلیل یہ ہے کہ اس وقت کسی امت / قوم کے پاس آسمانی کتاب نہی ہے، صرف امت مسلمہ کے پاس آسمانی کتاب قرآن مجید موجود ہے۔ رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ کی کتاب ہی اللہ کی رسی۔ جو امت اللہ کی کتاب کے زریعہ اللہ سے جوڑی ہو اس کو کوئی تباہ نہی کرسکتا،
ہزاروں سال پہلے مصر میں بھی ایک امت تھی، مظلوم تھی، پسماندہ تھی، ہر قسم کی بے انصافی اس کے ساتھ کی جا تی تھی۔ اس امت میں اللہ نے ایک نبی بھیجا جنہوں نے ان کی رہنمائی کی، اس امت نے اپنے رسول سے کہا تھا ہم تمہارے آنے سے پہلے بھی ستائےجاتے رہے اور اب بھی ستائے جارہے ہیں۔ اس امت کے نبی حضرت موسی ؑ نے اپنی امت سے شدید حالات میں چار باتیں کہیں جو سورۃ الاعراف آیت نمبر 128 میں ہے جس میں ہمارے لیے رہنمائی ہے
اس وقت پوری دنیا امت مسلمہ کو مٹانے کی کوشش کر رہی ہے، اللہ فرماتا ہے کہ منصوبے آسمان پر بنتے ہیں اور وہی نافظ بھی ہوتے ہیں۔ اس پر مولانا نے قرآن سے مثال پیش کی کہ اللہ کے منصوبہ کیسے نافظ ہوتے ہیں فرعون نے ایک منصوبہ بنایا تھا بنی اسرائیل کی اس پسماندہ امت کے لڑکوں کو قتل کیا جائے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے کچھ ہی عرصہ بعد اس کے نتیجہ میں جلد ہی مزدوروں کی افرادی قوت میں کمی آگئی، تو پھر فرعون نے اپنے منصوبہ میں یہ تبدیلی لائی کے ایک سال بچوں کو قتل کیا جائے اور ایک سال زندہ رکھا جائے۔
اللہ تعالی اپنے منصوبہ کے مطابق حضرت موسی ؑ کی پیدائش اس سال کیا جس سال بچے قتل کیے جانے والے تھے۔ بچے کے قتل کئے جانے کا امکان نظر آیا تو اللہ نے موسی ؑ کی ماں کو ہدایت کی کے بچے کو دودھ پلانے کے بعد بے خوف ہو کر بچے کو ایک سندوق میں ڈال کر دریا نیل میں ڈال دے، دریا میں وہ سندوق نہیں ڈوبے گا، سندوق بادشاہ کے دربار پہنچا فر عون نے جب بچے کو دیکھا تو اندازہ لگا لیا کہ یہ بچہ بنی اسرائیل کا ہے اور قتل کا ارادہ کیا لیکن اسکی بیوی نے کہا شائد ہم اس کو اپنا بیٹا بنا لیں گے، اللہ نے دودھ پلانے کے لیے موسی ؑ کو پھر ان کی ماں کے پاس بھجوادیا۔ اور موسی ؑ فرعون کے پاس پرورش پائی، اس طرح اللہ اپنے منصوبہ کو نافظ کرتا ہے، بنیادی بات یہ ہے کہ آج ہم اللہ سے دور ہوئے ، اس کے دین سے اس کی کتاب سے دور ہوئے ہیں، کیا اللہ ہم پر غضب ناک نہ ہوگا۔
مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب نے اپنے سلسلہ خطاب کو جاری رکھتے ہوئے سورۃ الاعراف کی آیت 128 کے حوالے سے کہا کے بنی اسرائیل کے ان شدید حالات میں موسی ؑ نے اپنی امت کو چار باتوں کی ہدایت کی ہے جو آج ہمارے لیے بھی رہنمائی کا ذریعہ ہیں:
۱) پہلی بات حضرت موسی ؑ نے ان حالات میں کہا “اللہ سے مدد چاہو”،
اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ہم ہی معتوب کیوں ہیں؟ مولانا نے مثال دی:آپ جارہے ہیں راستہ میں لڑائی ہو رہی ہوتو آپ کیا کرتے ہیں؟ آپ صلاح صفائی کرنے کی کو شش کرتے ہیں، اور اگر اس لڑائی میں آپ کا اپنا بچہ بھی ملوث ہوتو آپ کیا کرتے ہیں؟ آپ نہ صرف لڑائی ختم کروانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اپنے بچہ کو ڈانٹے تے بھی ہیں اور ضرورت پڑنے پر تھپڑ بھی مارتے ہیں،اللہ بھی اسی طرح ہم کو تھپڑ مار رہا ہے تاکہ ہم پلٹ آئین، اللہ کی یہ سزا باپ کی سزا کی طرح ہے، مولانا نے نیوزی لینڈ کی مثال پیش کی کے وہاں مسجد پر ایک دہشت گرد حملہ میں تقریبا 150مسلمان شہید ہو گئے لیکن اس کے بعد مسلمان بڑی تعداد میں اللہ کی طرف رجوع ہوئے تو اللہ نے وہاں اسلام کے لیے راہیں کھول دیں۔ جو شہید ہوئے اللہ نے ان کا خاتمہ ایساکیا کہ ان کے درجات بلند کردئے اور اس ملک میں اسلام زندہ ہوگیا ، اللہ نے اس شر میں سے خیر کو نکالا، دنیا میں مسلمان بہت سارے ممالک کو ہجرت کرکہ گئے ہیں،ان ممالک میں وہاں ان مقامی باشندوں کی عبادت گاہیں بند ہو رہی ہیں، کم ہو رہی ہیں اور مساجد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کےانشاءاللہ اسلام کا مستقبل تابناک ہو گا۔
(۲) حضرت موسی ؑ نے دوسری بات کہی کہ ” والصبرو ” دین پر جمے رہو
(۳) حضرت موسی ؑ نے تیسری بات یہ فرمائی کے زمین فرعون کی نہیں ہے بلکہ زمین اللہ کی ہے، چند دنوں کے لیے دوسروں کو موقع دیا ہے، اور پھر کسی اور کو اقتدار دے گا۔
-ہم سے پہلے جو امتیں گذری ہیں ان کو کتاب کی حفاظت کی ذمہ دار ی دی گئی تھی لیکن امت مسلمہ کو اللہ کی کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں دی گئی ہے کیونکہ اللہ نے اس کتاب کی حفاظت کی زمہ داری لی ہی اگر تم اس کتاب کو تھام لوگے تو اللہ تمھاری بھی حفاظت کرے گا۔
(۴)حضرت موسی ؑ نے چوتھی بات یہ بتائی کے “متقین کا انجام بہتر ہو گا۔ آخر کار متقین کے لیے آخرت کا انجام بہتر ھو گا،
موسی ؑ نے قوم سے کہا” جلدی نہ کرو قریب ہے وہ وقت کہ تمھارا رب تمھارے دشمن کو ہلاک کردے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے اور پھر دیکھے کے تم کیسے عمل کرتے ہو”۔
آخری بات یہ کے تاریخ بتاتی ہے کہ ہمیں جب کبھی کامیابی ملی ہے تو اپنے بل بوتے پر نہی بلکہ صرف اللہ کی مدد کی وجہہ سے، بدر، احد، فتح مکہ ہم صرف اللہ کی مدد کی وجہ سے کامیاب ہوئے،مگر حنین میں جب کہ ہم تعداد میں بہت تھے نقصان اٹھا رہے تھے پھر اللہ نے ہمارے مدد کی اور ہمیں بچالیا۔
آپ اللہ کے بن جائیں اللہ آپ کا بن جائے گا۔