سماجیمضامین

بالی ووڈ اداکارہ زائرہ وسیم اورعقل و روح کی کشمکش

تحریر: بالی ووڈ اداکارہ ، زائرہ وسیم
ترجمہ: ضیاء الرحمٰن علیمی

پانچ سال پہلے میں نے ایسا فیصلہ کیا جس نے ہمیشہ کے لیے میری زندگی بدل دی،جب میں نے بالی ووڈ کی دنیا میں قدم رکھا تو میرے لیے زبردست مقبولیت کے دروازے کھلے،اور میں عام توجہ کی مرکزی شخصیت بننے کی راہ پر گامزن ہو گئی،مجھ کوکام یابی کی “کتاب مقدس” کے طور پر پیش کیا گیا اور نئ نسل کے لیے ایک رول ماڈل کے طور پر بہت زیادہ مجھے پہچانا جانے لگا،حالاں کہ نہ تو میری جِدّ و جُہد اس غرض سے تھی اور نہ میرا یہ مقصود تھا ،خصوصا کام یابی اور نا کامی کی وہ دنیا جس کی جستجو ابھی ابھی میں نے شروع کی تھی،اس کے حوالے سے میری یہ فکر نہیں تھی۔

آج جب کہ بالی ووڈ کی دنیا میں داخل ہوئے میرے پانچ سال مکمل ہو گئے ہیں میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہتی ہوں کہ میں اپنے اس دائرۂ کار اور اپنی اس شناخت سے خوش نہیں ہوں،بہت لمبے عرصے سے اور تا ہنوز میں نے محسوس کیا ہے کہ میں کچھ اور ہی بننے کے لیے جد و جہد کرتی رہی ہوں ، جب میں نے اس دنیا کی سیر شروع کی اور ان چیزوں کا شعور حاصل کرنے کی کوشش کی جس کے لیے میں نے اپنا وقت لگایا ہے، جد وجہد صرف کی ہے اور اپنے جذبات کو قربان کیا ہے اور جس نئ زندگی سےمانوس ہونے اور اس کو سنبھالنے کوشش کی ہے ،تو بالآخر مجھے یہی احسا س ہوا کہ اگر چہ میں اس دنیا میں مکمل طور پر فٹ ہو سکتی ہوں لیکن حقیقتا میرا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس نئ دنیا نے اگر چہ مجھ کو محبت ،حمایت اور داد و تحسین سے نوازا ہے لیکن اس نے مجھ کو جہالت و گمرہی کی راہ پر بھی ڈال دیا ہے ،کیوں کہ میں آہستگی کے ساتھ اور لا شعوری پر طور پر ایمان سے باہر ہو گئی ہوں۔

میں اس ماحول میں کام کرتی رہی جس سےمسلسل میرےایمان میں کمزوری پیدا ہوتی رہی اور دین سے میرا رشتہ کو خطرہ لاحق ہو تا گیا ،میں جہالت کی اسی حالت میں آگے بڑھتی رہی اور اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ میں جو کر رہی ہوں ٹھیک ہی کر رہی ہوں اور اس سے میری ایمانی زندگی متاثر نہیں ہو رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح میری زندگی سے ساری برکتیں ختم ہو گئیں۔

#برکت ایسا لفظ ہے جو صرف دنیاوی خوشی،مال و دولت اور ظاہری خوش حالی میں محدود نہیں ہے بلکہ اس میں زندگی کا وہ اعتدال و توازن بھی شامل ہے جس کے لیے میں بہت زیادہ جد و جہد کرتی رہی ہوں ۔میں اپنی روح سے لگاتار جد و جہد کرتی رہی کہ وہ میرے موجودہ افکار و خیالات کے سامنے ہتھیار ڈال دے اور میں اپنی فطرت سے لڑتی رہی کہ وہ میرے ایمان کی بے روح تصویر کو قبول کر لے لیکن میں بری طرح نا کام ہوئی، صرف ایک مرتبہ نہیں بلکہ سینکڑوں مرتبہ۔

میں نے بالی ووڈ سے علاحدگی کے اپنے اس فیصلے کو مضبوط کرنے کی بہت کوشش کیا،لیکن ہر بار میرے اندر یہی احساس رہا کہ ایک دن میں اپنے آپ کو بدل دوں گی اور جلد ہی بدل دوں گی۔میں اپنے فیصلے میں ٹال مٹول کرتی رہی اور اپنے ضمیر کو اس فکر سے دھوکہ دیتی رہی کہ جو میں کر رہی ہوں وہ اگرچہ صحیح نہیں ہے لیکن جب مناسب وقت آئے گا تو میں اس دنیا کو الوداع کہہ دوں گی ، میں نے مسلسل اپنے آپ کو اس خطرناک ماحول میں روک کر رکھا جہاں میں آسانی کے ساتھ برائیوں میں بہہ سکتی تھی۔وہ ماحول جس نے میرے قلبی سکون ،ایمان ،اور میرے ر ب سے میرے تعلق کو نقصان پہنچا یا۔ میں مسلسل چیزوں کا احساس کرتی رہی اور اپنی فکر کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی رہی لیکن صحیح معنوں میں یہ نہیں سمجھ سکی کہ چیزوں کو ان کی حقیقت کے مطابق دیکھنا زیادہ اہم ہے ۔میں اس فیصلے سےمسلسل گریز کرتی رہی لیکن کسی نہ کسی طرح میں نے بالآخر اوہام خیالات کے اس بے نتیجہ سلسلے پر ضرب لگایا اور اس تسلسل کو توڑا جس سے حقیقت کا عنصر غائب تھا ،وہ جو مجھ کو مسلسل اذیت پہنچا رہا تھا،اور جس کا نہ تو مجھے شعور و ادراک ہو پا رہا تھا اور جس سے نہ میں خود کو مطمئن کر پا رہی تھی،یہاں تک کہ میں نے اپنی کمزوری سے لڑنے کا فیصلہ کیا اور جد وجہد شروع کی اور اپنی لاعلمی کی تلافی کرنے کی کوشش کی اور #طریقہ یہ اختیار کیا کہ میں نے اپنا دل #کلام_الہی سے لگا لیا ۔میں نے قرآن کریم کے عظیم افکار و خیالات اور الہی حکمتوں میں اطمینان اور سکون پایا، یقینی طور پر دل کو جب خالق کی ذات،اس کے اوصاف ،اس کی رحمتوں اور اس کے احکام کی معرفت حاصل ہوتی ہے توا س کو چین وسکون حاصل ہوتا ہے ۔

میں نے خود اعتمادی کو اہمیت دینے کے بجائے اپنی مدد اور رہ نمائی کے لیے اللہ کی رحمت پر بہت زیادہ اعتماد کرنا شروع کر دیا، مجھے اپنے دین کی بنیادی احکام سے نا واقفیت کا احساس ہوا اور اس بات کا بھی احساس ہوا کہ پہلے ہی میں اپنی اس حالت میں اس لیے تبدیلی نہ لا سکی کہ میں نے اپنے قلبی اطمینان اور روحانی صحت کے ساتھ ساتھ اپنے کھوکھلے اور بے جان خواہشات کی تقویت اور تکمیل کی کوشش کیا ، مجھے شک و وہم کی اس بیماری کا بھی ادراک ہوا جو میرے دل کو لگ چکی تھی ۔

دل پر دوطرح کی بیماریوں کا حملہ ہوتا ہے ایک تو شک و وہم کا،اور دوسری خواہشات کا ،ان دونوں کا ذکر قرآن میں ہے ،اللہ تعالی کاارشاد ہے :ان کے دلوں میں شک و نفاق کی بیماری ہے اور اللہ نے ان کی بیماری کو بڑھا دیا ۔(البقرہ:۱۰)
مجھے یہ احساس ہوا کہ اس بیماری کا علاج ہدایت ربانی سے ہی ہو سکتا ہے، اور یقینی طور پر اللہ تعالی نے میری رہ نمائی فرمائی جب کہ میں راہ سے بھٹک گئی تھی ۔قرآن مجید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہدایات میرے اس فیصلے کا اہم سبب بنیں،اس فیصلے نے زندگی اور اس کےمفہوم کے حوالے سے میری سوچ کو بدل دیا ہے ۔جس طرح ہماری خواہشات ہماری اخلاقیات کی عکاس ہیں، ہمارے اقدار ہماری باطنی قوت کا ظاہرہ ہیں ایسے ہی قرآن وسنت سے ہمارا تعلق رب تعالی، ہمارے دین ،ہماری تمنائیں ،زندگی کی معنویت اور اس کی مقصدیت کے حوالے سےہمارے رشتےکو متعین کرتا ہے اور اس کو واضح کرتا ہے۔

میں نے اپنی کامیابی کی فکر، زندگی کی معنویت اور مقصد یت کی گہرائی میں اتر کر اس کی گہری بنیادوں پر اچھی طرح غور وفکر کیا اور ان کو بحث وتحقیق کے کٹہرے میں کھڑا کیا ،چنانچہ وہ بنیادیں جو کہ ا ب تک مجھ پر غلبہ حاصل کیے ہوئے تھیں اور میرے افکار وخیالات کو متاثر کر رہی تھیں ،اس میں اب نئ جہت سے نشو و نما پیدا ہوئی اور معلوم ہوا کہ کام یابی ہمارے تعصب و توہم کی بنیادوں پر قائم زندگی کے کھوکھلے پیمانوں کے ساتھ جڑی نہیں ہے ،کام یابی تو اپنے مقصد تخلیق کی تکمیل کا نام ہے ،ہم اپنے مقصد تخلیق کو فراموش کر گئے ہیں ؛کیوں کہ ہماری زندگی جہالت وگمرہی کے ساتھ آگے بڑھی جا رہی ہےاور ہم اپنے ضمیر کو دھوکہ دیے جارہے ہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (تاکہ ان لوگوں کے دل جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کی امیدوں کی جانب مائل ہو جائیں اور وہ اس چیز سے خوش ہو جائیں اور وہ لوگ جو شر کرنا چاہتے ہیں وہ کریں)
(سورہ الانعام، آیت :۱۱۳)

ہمارا مقصد، ہماری سچائی یا ہماری خشیت کی شناخت ہمارے خود غرضانہ عمل سے نہیں ہوتی ،دنیاوی پیمانوں سے اس کو ناپا نہیں جا سکتا ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے :قسم ہے زمانے کی یقینی طور پر انسان بڑے گھاٹے میں ہے ،صرف چند وہ لوگ اس سے مستثنی ہیں جو ایمان رکھتے ہیں ، اچھے اعمال کرتے ہیں، ایک دوسرے کو سچائی کی دعوت دیتے ہیں اور صبر و استقامت کی وصیت کرتے ہیں ۔(العصر)

روح کے ساتھ میری جد وجہد کا یہ سفر بڑا پر مشقت رہا ہے ۔خود سے جد وجہد کے لیے یہ زندگی مختصر بھی ہے اور طویل بھی، اس لیے آج میں اس مضبوط فیصلے پر پہنچی ہوں اور میں بالی ووڈ کی دنیا سے اپنی علیحدگی کا آفیشیل اعلان کرتی ہوں ۔

سفر کی کام یابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ آغاز کس طرح سے کرتے ہیں ،اور میں بالی ووڈ کی دنیا سے اپنی لا تعلقی کا جو اعلان کر رہی ہوں ،اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں لوگوں کے سامنے اپنی شخصیت کی پر تقدس تصویر پیش کر سکوں بلکہ یہ وہ سب سے چھوٹی چیز ہے جس سے میں از سرطنو اپنی زندگی کا آغاز کرنا چاہتی ہوں ،اور یہ حق و ہدایت کی معرفت اور اس راہ تک پہنچنے کے بعد یہ میرا پہلا قدم ہے ، وہ راہ کہ جس پر چلنے کی میری تمنا تھی ،وہ راہ جس تک پہنچنے کے لیےمیں اب تک محنت کرتی رہی رہوں، اس دوران ہو سکتا ہے کہ میں نے بہت سے دلوں کی زمین میں شعوری یا لاشعوری طورپر خواہشات اور رنگینیوں کے بیج بوئی ہو لیکن میرا سب کو مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ کوئی بھی کام یابی ،شہرت ،طاقت ،جاہ ومنزلت ،اور مال و دولت خواہ وہ کتنی بڑی اور کتنی زیادہ کیوں نہ ہو لیکن اگر ان سے ہمارا اطمینان اور چین و سکون کھو جائے ،یا ہم اپنے ایمان سے محروم ہو جائیں تو یاد رکھیں کہ عظیم چیزوں کے عوض معمولی چیزوں کو نہیں خریدا جا سکتا۔

اپنی خواہشات کے سامنے نہ جھکنےکے لیے جد وجہد کیجیے ؛کیوں کہ خواہشات کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ ایک کے بعد ایک خواہشات کا سلسلہ دراز ہوتا رہتا ہے ۔اپنے آپ کو فریب میں مت ڈالیے اور اوہام کا شکار مت بنیے ،اور اپنے خود ساختہ، مبنی بر تعصب ،اصول دین پر ایمان مت لائیے ، وہ اصول جس میں انسان دانستہ طور پر حق کو چھپا دیتا ہے اور جس میں انسان اسی بات کو قبول کرتا ہے جو اس کی خواہش اور اس کی طبیعت کے زیادہ مناسب ہوتی ہے ۔

کبھی کبھی ہمارے ایمان میں بڑا عیب ہوتا ہے لیکن ہم اسے الفاظ و افکار کے جامۂ رنگیں میں چُھپا دیتے ہیں ،جو ہم کہتے ہیں وہ ہمارے دل میں نہیں ہوتا اور ہم اس کو سچ ثابت کرنے کے لیے ہر طرح کی راہیں تلاش کرتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حق تعالی ہمارے قولی وعملی تناقضات سے واقف ہے،وہ ہمارے ان خیالات سے بھی واقف ہے جو ہمارے زبان پر نہیں آئے کیوں کہ وہ تو سمیع و بصیر و علیم ہے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:اور اللہ جانتا ہے جو تم چھپاتے اور جو تم ظاہر کرتے ہو(النحل:۱۹)

خود ساختہ ایمان کو اہمیت دینے کے بجائےسچائی کی فہم و معرفت کے لیے حقیقی جد وجہد کریں ،پورے ایمان و اخلاص کے ساتھ اپنے آپ کو حق سے رو شناس کرائیں ۔
اے ایمان والو ! اگر تمہارے دلوں میں اللہ کا تقوی موجود ہے تو وہ تم کو حق وباطل کے درمیان امتیاز کی صلاحیت عطا فرمائے گا ۔ 
اللہ کی ناراضگی اور اس کے احکام کی پامالی میں مثالی کردار اور کام یابی کے معیارات تلاش نہ کریں اور ایسے لوگوں کو اپنے اوپر اثر انداز نہ ہونے دیں جو آپ کی پسند و ناپسند کو طے کریں،جو آپ کے اہداف و مقاصد کو طے کریں ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : قیامت کے دن انسان کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اس کو محبت ہو گی ۔
اپنے سے بہتر لوگوں سے مشورے لینے میں غرور و گھمنڈ کا شکار نہ ہوں بلکہ کبر و غرور سے اپنے آپ کو دور رکھیں ،اور صرف ہدایت ربانی پر بھروسہ کریں ؛کیوں کہ وہی اکیلا دلوں کو پھیرنے والا ہے اور جس کو وہ ہدایت عطا کرے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا ۔

ہر انسان کے اندر وہ زندہ شعور اور ضمیر موجود نہیں ہےکہ وہ جان سکے کہ ہمیں کس چیز کا علم ہونا چاہیے اور کس چیز کو بدلنا چاہیے؛اسی لیے کسی کے حوالے سےکسی کو کوئی فیصلہ کرنے اور کسی کی تذلیل وتحقیر اور استہزاء کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے ۔
ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم صحیح تفہیم کریں، ایک دوسرے کو تذکیر کریں ،اور اس طرح ایک مثبت کردار ادا کریں ۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے :اورتذکیر کرو اس لیے کہ تذکیر مومنوں کو نفع پہنچاتی ہے ۔(طور:۵۵) لیکن تذکیر کسی کا گلا دبا کر، جبر کے ساتھ، کسی کی تحقیر کر کے اور کسی کے ساتھ پر تشدد رویہ یا پرتشدد اسلوب اپنا کر نہیں ہونی چاہیے ،بلکہ تذکیر ، محبت ، پیار ، اور لطف و مہربانی کے ساتھ اس طرح ہونی چاہیے کہ ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں پر اثر انداز ہو سکیں ،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :اگر تم دیکھو کہ تمہارے کسی بھائی سے خطا ہو گئی ہے تو اس کو صحیح راہ پر لے آئو، اس کے لیے دعا کرو اور اس کا مذاق اڑا کر اور اس کی بے عزتی کرکے شیطان کے مددگار نہ بنو۔

لیکن تذکیر سے پہلے یاد رہے کہ ہم خود اسلام کی عملی تصویر بنیں، اس کی صحیح فہم حاصل کریں ،اپنے دل میں اس کی صحیح معرفت پہنچائیں،اپنے عمل ،ارادے اور کردار سے اس کو ظاہر کریں ،اور پھر جو لوگ اسلام کی بنیادی تعلیم کے حوالے سے فہم ویقین اور عملی و اخلاقی جہت سے کم زور ہوں ان کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں اور یہ بات یاد رکھیں کہ جب آپ اس سفر کا آغاز کریں گے یا اس کے احکام پر عمل کریں گے تو آپ کو مشکلات در پیش ہوں گی، لوگ آپ کی تردید کریں گے ،آپ کا مذاق اڑائیں گے اور دوسروں کی جانب سے آپ کو اذیتیں پہنچیں گی اور کبھی یہ ساری چیزیں ان لوگوں کی جانب سےبھی آئیں گی جن سے آپ محبت کرتے ہیں اور جوا ٓپ سے سب سے زیادہ قریب ہے ۔کبھی کبھی آپ کو یہ تکلیفیں اس لیے بھی در پیش ہوں گی کہ آپ پہلے یا اب تک پوری زندگی وہی غلط کام کرتے رہے ہیں ،لیکن ان چیزوں کی وجہ سے حوصلہ نہ ہاریں اور اللہ کی رحمت و ہدایت سے مایوس نہ ہوں کیوں کہ اس کی ذات ہادی ہے ،آپ کےسابقہ گناہ آپ کو توبہ سے نہ روکیں کیوں کہ اس کی ذات غفار ہے ، یقینی طور پر اللہ تعالی ان لوگوں سے محبت فرماتا ہے جوا س کی بارگاہ میں ندامت و توبہ کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں، اور جو اپنے آپ کو پاک و صاف اور ستھرا رکھتے ہیں (بقرہ:۲۲۲)،لوگوں کےفیصلے ان کی باتیں ، ان کی جانب سے استہزاء ،اور توہین آمیز کلمات یا ان کا خوف آپ کو حق کی اس راہ سے نہ روکے جس راہ پر آپ چلنا چاہتے ہیں ،یا حق کے حوالے سے مکمل طور پر اپنے دل کی باتوں کے اظہار سے یہ چیزیں آپ کونہ روکیں؛ کیوں کہ یاد رکھیں اس کی ذات الولی یعنی مددگار ہے ۔مستقبل کی فکر آپ کی راہ ہدایت و اصلاح میں رکاوٹ نہ بنے ،کیوں کہ وہ رزاق ہے ۔یقینی طورپر یہ راہ مشکل، پُر پیچ اور کبھی کبھی نا قابل تصور حد تک سب سے الگ کردینے والی راہ ہے، خصوصا آج کے زمانے میں، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :عن قریب ایسا زمانہ آئے گا جب دین پر عمل کرنا آگ کا انگارا اٹھانے کے برابر ہوگا ۔

اللہ تعالی ہماری کشتی ہدایت کو ساحل سے ہم کنار کرے اور حق وباطل کے درمیان امتیاز میں ہماری مدد فرمائے ،اللہ تعالی ہمارے ایمان کو مضبوط فرمائے اور ہمیں ان لوگوں میں شامل فرمائے جو اس کے ذکر میں لگے رہتے ہیں ،ہمارے قلوب کو مضبوط فرمائے اور ہمیں استقامت فرمائے ، اللہ ہمیں اپنی حکمت کی بہتر فہم عطا فرمائے اور شک وہم کو اپنی زندگی سے دور کرنے کے لیے جد وجہد اور تعاون کی تمام افراد کو توفیق عطا فرمائے،اللہ تعالی ہمارے دلوں کو کبر و نفاق اور جہل سے پاک فرمائے ،ہماری نیتوں کو درست فرمائے ،اور ہمارے قول وعمل میں اخلاص عطا فرمائے ،آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!