مجوزہ جدید تعلیمی پالیسی اور مسلمان
شیخ رکن الدین ندوی نظامی
آج حکومتیں چاہے ریاستی ہوں یا مرکزی
تمام باشندگان ملک کو پیش نظر رکھ کر کسی بھی قسم کی پالیسی وضع نہیں کرتیں بلکہ نسلی لسانی اور گروہی مفاد کو بالعموم پیش نظر رکھا جاتا ہے اور دیگر اکثر طبقات یا تو جانتے بوجھتے ترک کئے جاتے ہیں یا واقفیت اور نمائندگی نہ ہونے کی بنا پرملک کے تمام دیگرباشندوں میں سب سے زیادہ اگر کوئی دانستہ ترک کردیا جانے والا طبقہ ہے تو وہ ”مسلمان“ ہیں اس کے کئی وجوہات و اسباب ہیں اور ہوسکتے ہیں اس پر کسی موقعے پر تفصیلی گفتگو کی جائےگی. ان شاءاللہ
پانچ سو صفتحات پر مشتمل 2019 تعلیمی پالیسی میں صرف ڈیڑھ صفحے پر گفتگو کرنا بالیقین افسوس کا مقام ہے اور کھلا ظلم و سوتیلا سلوک ہے جبکہ سابقہ سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی صورت حال دلتوں سے بھی گئی گزری ہے
ایسے میں قومی تعلیمی پالیسی میں بڑے پیمانے پر گفتگو اور بحث کی جاتی اور ملک کی دوسری بڑی اکثریت ـجس کی آبادی یوروپ کے تین ممالک کے برابر ہے ـ کو قومی دھارے میں لانے اور ملک کو ترقی کی سمت لےجانے کی فکر اور منصوبہ بندی کی جاتی نیز ماہرین تعلیم سے مشاورت کی جاتی!!
مگر حکمرانوں کو ملک کی حقیقی ترقی و استحکام پیش نظر کہاں؟؟ اس ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے. مسلمانوں کی اپنی مضبوط و مستحکم تعلیمی پالیسی ہو جس پہ حکومت وقت کو مطمئن کرے اور خدا نخواستہ حکومت سوتیلا سلوک کرے تو اپنے بل بوتے پر امت مسلمہ کی تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے، ویسے ملک کے تقریباً سارے ہی دینی ادارے خود امت کے تعاون سے خودمکتفی ہیں الاماشاءاللہ
اور عصری ادارے بھی بہت کم سرکاری امداد پاتے ہیں۔
امت مسلمہ دراصل داعی امت ہے دعوت دین کےلئے علم کی سخت ضرورت ہے اپنی تمام تر قوت علمی میدان میں زیادہ سے زیادہ صرف کی جائے۔
علم کے میدان میں ریاستی و مرکزی پالیسی و منصوبہ بندی نیز بجٹ میں بھی آبادی کے اعتبار سے متناسب حصےداری ہو، تاکہ ملک کی ترقی میں کسی قسم کی ناہمواری اونچ نیچ نہ ہو اور طبقاتی کشمکش کی صورت پیدا نہ ہو۔
ملت اسلامیہ کو دو کام کرنے پڑیں گے
* اپنی تعلیمی پالیسی
جس میں اعتقادات سے لےکر معاملات و اخلاق تک کی حفاظت ہو
*قومی تعلیمی پالیسی میں متناسب حصےداری
مناسب تعلیمی پالیسی وضع کی جائے اور ریاست و مرکز سے مسلسل نمائندگی کی جائے اور آمادہ کیاجائے کہ قومی تعلیمی پالیسی میں مسلمانوں کو آبادی اور پسماندگی کے تناسب سے مواقع فراہم کردئے جائیں