سماجیمضامین

دارالعلوم دیوبند میں اندریش کا استقبال: کہیں مصالحت اور مذاکرات کے دور کا آغاز تو نہیں!

زین شمسی

یہ سانحہ گردش ایام ہے یا حکمت، مصلحت، منصوبہ، لائحہ عمل کا سلیقہ وطریقہ کہ بھارت کےدو کٹرحریف نظریات کے حامل رہنما ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ کر امن و آتشی کی بات کرتے نظر آئے۔ یا پھر یہ بھارتیہ سیاست کا الٹ پھیر ہےیا سماجی و ملی ڈھانچہ کی کمزوری کہ بدامنی پھیلانے والی تنظیم کالیڈر امن کا پیغام دینے والے ادارے کے سربراہ کو امن کی تلقین کرنے پہنچ رہا ہے۔ اندریش کا دارالعلوم میں گھس جانا اس بات کا اشارہ تو ضرور ہے کہ اب بلاوجہ آر ایس ایس کی مخالفت وقت کا زیاں بھی ہے اور نئے بھارت کی "تشکیل ” میں رکاوٹ بھی۔

ابھی کتنے دن گزرے ہوں گے کہ بی جے پی کا کوئی سی کلاس لیڈر بھی کسی پرائیویٹ نہیں بلکہ سرکاری ادارے میں داخل ہو جاتا تھا تو طلبا کا شدید احتجاج اس کا استقبال کرتا تھا، لیکن اب اندریش کی رسائیئی دارالعلوم تک ہو جانے سے مطلع صاف ہے کہ حکمت عملی بدل چکی ہے۔ اب تو جتنے چھٹھ بھیا ہیں وہ پہلے سے زیادہ اندریش کے دربار میں حاضری دیں گے۔ یہ تصویر آرایس ایس کے فرنٹ فٹ پر کھیلنے کا قصیدہ بھی ہے اور مسلمانوں کے بیک فٹ پر آ جانے کا مرثیہ بھی۔

لیکن یہاں پر رکئے اور غور بھی کیجئے۔ اس سے انکار نہیں کہ عداوت ، نفرت، رقابت اور دشمنی ختم کرنے کاواحد حل مذاکرات میں ہی پوشیدہ ہے۔ بات سے بات چلے گی تو بات بنے گی بھی۔ دارالعلوم میں اندریش کے استقبال کو کئی اندیشوں اور وسوسوں کے ساتھ بھی دیکھا جانا چاہیے۔ طلاق ثلاثہ کا سرکاری معاملہ آخری دور میں ہے، بابری مسجد کی شہادت معاملہ میں ثالث مقررہو چکے ہیں۔ مدارس معاملہ میں مودی کا انٹرسٹ بھی سامنے ہے۔مسلمانوں کے جتنے بھی سیاسی متبادل کانگریس ، آر جے ڈی ، ایس پی ، بی ایس پی یہاں تک کہ ترنمول بھی بونے بنا دئے گئے ہیں۔

جمعیتہ علما ہند کا صد سالہ جشن سر پر ہے۔ اس کی کامیابی کا دار و مدار بھی سرکاری سیکورٹی پر منحصر ہے۔ ایسے میں دارالعلوم دیوبند میں اندریش کی موجودگی کو کئی معنی دئے جا سکتے ہیں۔ لیکن بادی النظر میں یہ تصویر اس بات کا بھی اشارہ دیتی ہے کہ اب مصالحت اور مذاکرات کا دور آ پہنچا ہے لیکن اس بات کا بھی شدت سے احساس دلاتی ہے کہ اچھا ہوتا کہ دارالعلوم کا وفد ناگپور کے آر ایس ایس ہیڈ کوارٹر میں امن کا پیغام لے کر جاتا، اندریش کا دار العلوم میں امن کا پیغام لے کر پہنچنا کچھ اٹ پٹا سا ضرور ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!