تلنگانہریاستوں سے

سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد میں 2 روزہ قومی سمینار کا اختتام، ریسرچ اسکالرس نے پیش کیے مقالے

ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا اردو سے گہرا رشتہ

حیدرآباد:10/فروری (پی این) آزادی کا امرت مہا اتسو بینر کے تحت ڈپارٹمنٹ آف اسٹوڈنٹز ولفیئر، چیف واڑن آفس اور شعبۂ اردو یونی ورسٹی آف حیدرآباد کے زیر اہتمام دو روزہ قومی سیمینار بعنوان ” اردو ادب میں ہندستانی عناصر 1947 کے بعد” آج بڑی خوش نظمی کے ساتھ اختتام کو پہنچا ہے۔ اس سیمنار کا آن لائین افتتاحی اجلاس گزشتہ روز مورخہ 9 فروری صبح دس بجے منعقد ہوا جس کی صدارت پروفیسر وی کرشنا، ڈین اسکول آف ہیومینٹیز یونی ورسٹی آف حیدر آباد اور پروفیسر ناگا راجو، ڈین اسٹوڈنڈٹ ویلفیئر، یونی ورسٹی آف حیدر آباد نے کی۔

اجلاس کے آغاز میں صدر شعبۂ اردو پروفیسر سید فضل اللہ مکرم نے تمام ذی وقار شرکاء اور ریسرچ اسکالرز کا استقبال کیا نیز سیمینار کی کامیابی کے لیے بھی اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ جبکہ سیمینار کوارڈینیٹر ایسو سیٹ پروفیسر شعبۂ اردو ڈاکٹر عرشیہ جبیں نے نہایت ہی جامع الفاظ میں سیمینار کے اغراز و مقاصد سے شرکاء کو آگاہ کیا اور 1947 کے بعد اردو ادب میں تہذیبی و ثقافتی عناصر کی دریافت کو سیمینار کے بنیادی مقصد سے تعبیر کیا۔ واضح رہے اپنے افتتاحی خطبہ میں شیخ الجامعہ پروفیسر بی جے راو ئنے ہندستانی زبان میں مستعمل اردو ہندی مشترکہ عناصر کو ثقافتی میراث سے تعبیر کرتے ہوئے موضوع کی اہمیت کی سراہنا کی اور شعبۂ اردو کے تمام منتظمین کو اس کے لیے مبارکباد کا مستحق کہا۔

افتتاحی اجلاس میں شریک مہمانان ذی وقار پروفیسر شارب ردولوی، پروفیسر، محمد زماں آزردہ، پروفیسر شہزاد انجم، پروفیسر کے وی نکولن اور فروفیسر فاروق بخشی نے بھی موضوع سے متعلق اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کیا۔ جہاں پروفیسر شارب ردولوی نے تہذیبی عناصر کو اجاگر کرنے کے لیے اردو ادب کے روایتی منظرنامہ کے مطالعہ کی ناگزیریت پر زور دیا وہیں پروفیسر محمد زماں آزردہ نے ان عناصر کو قومی و ثقافتی شناخت سے تعبیر کیا۔

مہمان اعزازی پروفیسر شہزاد انجم نے سیمینار میں پیش کیے جانے والے مقالوں کے موضوعاتی تنوع کی غیر معمولی اہمیت کو اردو ادب کی وستعتوں کا نتیجہ کہا اور سیمینار کے انعقاد پر شعبۂ اردو کے جملہ منتظمین کو مبارکباد پیش کی۔ موضوع کی لسانی اور ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے پروفیسر وی نکولن اور صدر شعبۂ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی پروفیسر فاروق بخشی نے اس قسم کے موضوعات کو وقت کی اہم ضرورت سمجھا۔ انہوں نے سیمینار کے انعقاد پر شعبۂ اردو کی سراہنا کی اور اپنی نیک خواہشات کا بھی اظہار کیا۔

اجلاس کا کلیدی خطبہ سابق چیئر پرسن، سینٹر آف انڈین لینگویجز جے این یو دہلی، پروفیسر انور پاشا نے پیش کیا جس میں انہوں نے یہاں کی ثقافتی روایت کی متنوع خصوصیات پر جامع خیالات کا اظہار کیا اور فراق گورکھپوری کے اس شعر کے ذریعہ اپنی پرمغز گفتگو کا احاطہ کیا۔سرزمین ہند پر اقوام عالم کے فراق۔قافلے بستے گئے اور ہندستان بنتا گیا۔آپ کے علاوہ ڈین اسٹوڈنٹ ولفیئر یونی ورسٹی آف حیدر آباد پروفیسر ناگاراجو نے بھی حیدرآبادی اور لکھنوی تہذیب کے حوالے سے موضوع کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

معلوم رہے اس افتتاحی اجلاس کی نظامت شعبۂ اردو کے ریسرچ اسکالر محمد خوشتر نے کی جبکہ اظہار تشکر کا فریضہ شعبۂ اردو کی ریسرچ اسکالر رشدہ شاہین نے بہ حسن و خوبی انجام دیا۔مقالہ خوانی پر مشتمل سیمینار کے پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسر ابن کنول نے کی جبکہ نظامت کے فرائض شعبہ اردو کے ریسرچ اسکالر اطیع اللہ نے انجام دیے اس اجلاس میں کل 6 مقالے پڑھے گیے۔ جن کے اختتام پر صدر مجلس پروفیسر ابن کنول نے مقالوں کے حسن و معائب پر کھل کر بات کی اور موضوع کی مناسبت کے باوجود مقالوں میں غیر تکراری رویہ کی سراہنا کی۔ آخر پر شعبہ اردو کی ریسرچ اسکالر اسماء امروز نے اظہار تشکر کیا۔

مقالہ خوانی کے دوسرے اجلاس کی کاروائی شعبۂ اردو کی ریسرچ اسکالر نہا نورین نے چلاء جبکہ مجلس کی صدارت صدر شعبۂ اردو بنارس ہندو یونی ورسٹی پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے کی۔ اس اجلاس میں کل پانچ مقالے پڑھے گئے اور اختتام پر صدر جلسہ نے بڑی باریک بینی کے ساتھ پڑھے گئے مقالوں کا محاسبہ کیا۔انہوں نے شعبۂ اردو کی اس کاوش کی سراہنا کرتے ہوئے اسے اردو کے مستقبل کی تابناکی کا جواز کہا۔ اس اجلاس کے آخر میں شعبۂ اردو کے ریسرچ اسکالر اظہر جمال نے شرکاء کی خدمت میں اظہار تشکر کیا۔

واضح رہے اس دوروزہ سیمینار کا تیسرا اجلاس دس فروری صبح دس بجے منعقد ہوا جس کی صدارت سابق صدر شعبۂ اردو امیڈکر یونی ورسٹی حیدرآباد پروفیسر شوکت حیات نے کی۔ جبکہ نظامت کے فرائض شعبۂ اردو کے ریسرچ اسکالر جاوید رسول نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں کل سات مقالے پیش کیے گئے جن پر صدر جلسہ پروفیسر شوکت حیات نے مفصل بحث کی اور نئی نسل میں لکھنے کے ذوق کی سراہنا کی۔ اس اجلاس کے آخر میں شعبۂ اردو کے ریسرچ اسکالر محمد شاکر اظہار تشکر کیا۔سیمینار کے چوتھے اجلاس میں کل آٹھ مقالے پڑھے گئے۔ جن پر صدر اجلاس صدر شعبۂ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی پروفیسر فاروق بخشی نے اپنے صدارتی خطبے میں کھل کر بات کی۔ اجلاس کی نظامت شعبۂ اردو کے ریسرچ اسکالر پرشوتم سنگھ نے کی جبکہ اظہار تشکر کا فریضہ شعبۂ کی سینئر ریسرچ اسکالر زنیرہ ابرار نے انجام دیا۔

مذکورہ سیمینار میں مقالہ خوانی کا پانچواں یعنی آخری اجلاس صابق صدر شعبۂ اردو مولانا آزاد یونی ورسٹی پروفیسر نسیم الدین فریس اور صدر شعبۂ اردو ممبئی یونی ورسٹی ڈاکٹر عبداللہ امتیاز کی صدارت میں اختتام کو پہنچا۔ اس اجلاس میں کل گیارہ مقالے پڑھے گئے۔ ڈاکٹر عبدالمغنی صدیقی، ڈاکٹر واجدہ بیگم اور محمد خوشتر انوارالعلوم کالج نے بھی اس سمینار میں اپنے مقالے پیش کیے۔ جس میں محمد خوشتر نے مظفر حنفی کی تحریروں میں ہندوستانی عناصر،عشرت رسول علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اردو ناولوں میں ہندوستانی رسم و رواج،رشدہ شاہین نے خواتین کی خودنوشت سوانح عمریوں میں ہندوستانی تہذیب اوراس اجلاس کی نظامت ریسرچ اسکالر محمد شاکر نے کی جبکہ جاوید احمد نے شرکاء کی خدمت میں اظہار تشکر کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!