سماجیمضامین

مسلمان: خود اعتمادی اور خود احتسابی

اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی

اقوام میں ترقی کے لئے دو چیزیں بے حد ضروری ہیں۔ خود اعتمادی اورخود احتسابی۔ ان  کے بغیر کوئی بھی قوم نہ اپنا وجود باقی رکھ سکتی ہے اور نہ ترقی کی منزلیں طے کر سکتی ہے۔ مسابقت کی دوڑ میں خود کو آگے رکھنے کے لئے خود اعتمادی ایندھن کی طرح ہے اور خود احتسابی کے بغیر صحیح راہ کی پہچان اور اس پر گامزن ہونا نا ممکن ہے۔ جب تک آپ کو اس بات کا یقین اور اعتماد نہ ہو کہ آپ اس کار گاہ ہستی میں کوئی بے کار شئے نہیں ہیں بلکہ آپ کی نقل و حرکت سے ہی یہاں بہار و خزاں کا ظہور ہوتا ہے، زمین اناج اگلتی ہے اور آسما ن سے بارش برستا ہے آپ وسائل رکھتے ہوئے بھی ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اسی طرح جب تک آپ خود کو خود احتسابی کے تیز آنچ میں نہیں تپائیں گے آپ کو کھرے کھوٹے کی،صحیح غلط کی،جھوٹ سچ کی پہچان کبھی نہیں ہوسکتی۔ آپ خود اعتمادی کے ساتھ بھر پور وسائل رکھتے ہوئے بھی سعی ءِ لاحاصل کے چکر ویو میں گھومتے رہیں گے۔

موجودہ دور مسلمانوں کے لئے خاص کر ہندوستانی مسلمانوں کے لئے نازک ترین دور ہے۔ ایک طرف زندگی کے ہر میدان میں ہم بد ترین پسماندگی کا شکار ہیں تو دوسری طرف ہمیں اپنی پہچان چھن جانے کا خدشہ رات دن پریشان کئے ہوئے ہے۔حالات اتنے بد ترین ہوچکے  ہیں کہ ایک طرف کھلے عام ہمارے قتل عام کے منصوبے بنائے جارہے ہیں، ہر نکڑ اور ہر ڈگر پر ہماری بری طرح تذلیل کی جارہی ہے،ہماری عورتوں کی سوشیل میڈیا میں نیلامی ہورہی ہے لیکن دوسری طرف اقوام عالم ظلم و جبر کے ان مناظر کو تماشائی کی طرح دیکھ کر نظر انداز کر رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے قیامت سے پہلے ایک اور قیامت ہماری منتظر ہے۔ خدانخواستہ کچھ غلط ہوگیا اور فسطائی طاقتیں اپنے ناپاک منصوبوں کو تکمیل کے مراحل تک لے آئیں تو پھر جو صورتحال پیدا ہوگی اس کو سوچ کر رونگٹھے کھڑے ہوئے جارہے ہیں۔

ان بدترین حالات میں ہمارے لئے اگر کوئی چیز کارگر ثابت ہوسکتی ہے تو  یہی خود اعتمادی اور خود احتسابی ہے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ کچھ لوگ غرور وتکبر، نخوت اور احساس برتری کو خود اعتمادی سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ غرور و تکبر، نخوت و احساس برتری نفسیاتی امراض کے ذمرے میں آتے ہیں اور ان میں مبتلا افراد سے قوم و ملت کو ہمیشہ نقصان ہی ہوا ہے۔ خود اعتمادی ایک صالح سوچ ہے، اس میں فرد اپنے آپ پر اپنی کمیوں، کمزوریوں اورخامیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے یقین،مستحکم کرتا ہے اور ڈٹ جاتا ہے۔ ہمیں آج ایسے ہی خود اعتمادی کی ضرورت ہے۔ ہمیں پہلے اپنے کمیوں کمزوریوں اور خامیوں کو ذہن میں رکھنا ہے۔

ہمیں دیکھنا ہے کہ تعلیم، معاش، سیاست، سماجی خدمت کے میدانوں میں ہم بہت پیچھے ہیں اور یہ ہماری سب سے بڑی کمی ہے، جذباتیت، جلد بازی، معمولی بات پر مشتعل ہوجانا ہماری کمزوریاں ہیں، جہالت وجاہلیت، دوسرے اقوام سے تال میل کا فقدان، بردران وطن کے چند حلقوں پر اندھا اعتماد اور چند حلقوں سے انتہائی دشمنی ہماری بڑی خامیاں ہیں۔ ان سب چیزوں کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں ان کے کمیت کے مطابق ذہن میں رکھ کر ہمیں خود پر یقین پیدا کرنا ہوگا پھر اسے مستحکم کرنا ہوگا۔ چونکہ ہمیں اپنے کمیوں کمزوریوں اور خامیوں کا پہلے سے ہی اندازہ ہوگا اس لئے کسی کے اس پر طنز کرنے سے یا ہجو کرنے سے ہمارا خود پر اعتماد متزلزل نہیں ہوگا اور نہ ہم کسی طرح کی احساس کمتری کا شکار ہوں گے۔

جب ہم ایسی خود اعتمادی کو پالیں گے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت کسی بھی طرح سے ہمیں مرعوب نہیں کر سکے گی۔

جہاں تک خود احتسابی کا معاملہ ہے اس پر بحیثیت مسلمان و انسان بھی ہمیں گذرنا ہے اور بحیثیت قوم بھی۔ ایک مسلمان اور ایک انسان کی حیثیت سے ہمیں کیا کرنا چاہئے تھا اور ہم نے کیا کیا؟ کیا ہم نے بلا تفریق قوم و مذہب انسانوں کی غم خواری کی، بھوکوں کو کھاناکھلایا، کمزوروں کے ڈھال بنے، یتیموں یسیروں کے سروں پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا، پڑوسیوں کی خبر گیری کی، ان کے دکھ درد میں ان کا ساتھ دیا،رشتہ داروں کے ساتھ ہمارا سلوک کیسا رہا، ہم حج پر حج عمرے پر عمرہ کرتے رہے اور ہمارا بھائی مقروض ہوکر دانے دانے کو ترستا رہا، اور بحیثیت قوم کیا ہم نے دنیا میں امن و سلامتی کے لئے سنجیدہ کوشش کی، رب العالمین کی جانب سے جو فرض ہمیں سونپا گیا تھا اسے ادا کرنے میں ہم کتنے کامیاب رہے۔ دنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے، اس کو اس ترقی کی شاہراہ پر لانے میں اور اس کی گاڑی کو رفتار کے ساتھ آگے لے جانے میں ہمارا کیا کردار رہا ہے۔

دنیا کواخلاقی، معاشی، سماجی اور سیاسی قیادت دینے میں ہم بری طرح ناکام کیوں ہورہے ہیں۔ آپسی اتحاد و اتفاق کیوں ہمارے لئے ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ اللہ، رسول اور اس کے کتاب کے نام پر بھی ہم کیوں اکٹھا نہیں ہورہے ہیں۔ ایسی کیا بات ہوگئی ہے کہ ہر جگہ ہم دھتکارے جارہے ہیں، ہمیں دہشت گرد بتا کر کیوں دنیا کی ایک بڑی آبادی ہم سے دور ہوتی جارہی ہے، دنیا کے کسی بھی اسٹیج پرہمارا کردار کیوں نہ کے برابر ہے، ان سب سوالوں پر انفرادی طور پر بھی بحیثیت قوم بھی ہمیں غور و فکر اور خود احتسابی کی شدید ضرورت ہے۔

جب تک ہم خود کو خود احتسابی کے پل صراط سے نہیں گزاریں گے نرگسیت سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے خود اعتمادی کے ساتھ مستقبل کے لئے ایک لائحہ عمل مرتب کرکے اس پر ثابت قدمی کے ساتھ نہیں جمیں گے ہمیں اسی طرح خوف اور ڈر کے ماحول میں دھکیلا جاتا رہے گا۔ گلی چلتا ہوا ہر کتا ہم پر بھونکے گا، ہر پاگل مجنون ہم پر پتھر پھینکے گا، راستے میں پڑی ہوئی چھوٹی سی رسی پر بھی ہمیں سانپ کا گمان ہوگا اور ہم سماج اور معاشرے سے الگ ایک گھیٹو بنا کر جینے میں ہی عافیت سمجھیں گے جو  فسطائی طاقتوں اورہمارے دشمنوں کا اصل مقصد ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!