حالاتِ حاضرہمضامین

افغانستان اور طالبان۔۔۔ ایک جائزہ

اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی

جب فضا غبار آلود ہو تو بہتر یہی ہے کہ آگے بڑھنے سے خود کو روکے رکھیں اور غبار کے بیٹھنے کا انتظار کریں۔ گزشتہ کئی دنوں سے افغانستان کے تعلق سے جو خبریں آرہی ہیں ان کے تعلق سے یقینی طور پر کچھ بھی کہنا اس لئے ممکن نہیں ہے کہ ان میں سے اکثر خبریں ایسے ذرائع سے آرہی ہیں جن کی صداقت مشکوک ہے۔ یہ خبریں بغیر تحقیق کی ہیں اور کہیں کہیں تو کچھ فلمی منظر کو بھی خبر بنا کر پھیلا دیا جارہا ہے۔ ایسے میں کسی بھی نتیجے پر پہنچنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔بیس سال قبل امریکہ کے افغانستان پر یلغار کے بعد جو صورتحال وہاں پیدا ہوئی اور تباہی و بربادی کا جو کھیل وہاں کھیلا گیا اس پر عالمی سطح پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ ان باتوں کو دہرا کر آہ و بکا کرنا عبس ہے جو ہونا تھا وہ ہوگیا، بہتر ہے کہ اب افغانستان کی حال اور مستقبل پر بات کی جائے۔

اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ امریکہ نے افغانستان پر جنگ مسلط کر کے نہ صرف اپنا بہت بڑا نقصان کیا بلکہ پورے خطہ میں ایک غیر یقینی فضا پیدا کر دی جس کی وجہ سے افغانستان میں مکمل امن آج ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ یہ نکتہ کہ اس نے افغانستان پر جو جنگ مسلط کی تھی وہ ایک ایسی اندھیرے سرنگ کی طرح ہے جس کا کوئی اختتام نہیں، امریکہ بہادر کے سمجھ میں جنگ چھیڑنے کے کچھ ہی عرصے بعد آگیا تھا، لیکن وہ اپنے پھیلائے ہوئے جال میں اس بری طرح الجھ چکا تھا کہ باہر نکلنے کے لئے اُسے لمبا انتظار کرنا پڑا۔

جاننے والے جانتے ہیں کہ انکل سام اور ان کے حواری کوئی بھی جنگ ہارنے کے باوجود کبھی بھی دشمن کو جیتا ہوا چھوڑ کر نہیں جاتے بلکہ کبھی ایسی صورتحال پیدا ہوجائے تو وہ غنیم کو ایسے مسائل میں الجھا کر نکلتے ہیں کہ ان مسائل کو حل کرنے لئے صدیاں درکار ہوتی ہیں اوران صدیوں میں کشت و خون کے ایسے بازار گرم ہوجاتے ہیں کہ جن کی بہتات میں اصل مسئلے کا پتہ ہی نہیں چلتا، الٹا نئے نئے ایسے مسائل ابھر آتے ہیں کہ اچھے اچھے دانشمند بھی  چکرا کر رہ جائیں۔

کہا جاتا ہے گزشتہ کئی سالوں سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کو لے کر بات چیت کے کئی دور چلے اور آخر کار ایک حتمی تاریخ طے کر کے سمجھوتے پر دونوں کے دستخط ثبت ہوئے۔ اس کے بعد ہی انخلا شروع ہوا اور یوں امریکہ بہادر مکمل ہوشیاری سے مزید کسی زیاں کے اپنا ایک ایک فوجی افغانستان سے بحفاظت نکال لے جانے میں کامیاب ہوا۔ عیاری کی اس شہہ چال میں بظاہر اس کی مات ہوتی نظر آرہی ہے لیکن اس نے اپنے پیچھے، چھوڑی ہوئی زمین میں کہاں کہاں کس قسم کے بارودی زخائر بچھا رکھے ہیں اور وہ کب دھماکہ کریں گے، ان کے اس دھماکے سے کس قسم کے حالات پیدا ہوں گے جب تک یہ سب باتیں سامنے نہیں آجاتیں، جیت کا دعویٰ اور اس پر اترانا حماقتی فعل ہے۔طالبان کے حوالے سے برصغیر کے مسلمانوں کا ایک طبقہ اپنے دل میں آج بھی نر م گوشہ رکھتا ہے۔

در حقیقت ان کا ظاہری حلیہ اور بظاہر اسلام کے اصولوں کی پابندی کی ضد، ان کے تعلق سے اس غلط فہمی کاموجب ہے۔ اس کا اندازہ بہت کم لوگوں کو ہے کہ ان کی سیاسی بصیرت سے بے نیاز فیصلوں اور اسلام کے مسلمہ اصولوں کے ساتھ ان کی غیر ذمہ دارانہ چھڑ چھاڑ کی وجہ سے عالمی سطح پر مسلمانوں کی جو شبیہ بگڑی ہے اور اسلام کی اشاعت متاثر ہوئی ہے اور اسلام کو جو نقصان پہنچا ہے، اس کی بھر پائی میں دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ طالبان کے تعلق سے اچھی طرح سمجھ لیں کہ وہ ایک ایسی قبائلی نظام کے پیداوار ہیں جس میں اول تا آخر مرد ہی حاکم ہوتا ہے، ان کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور کچھ ضوابط، جن سے یہ ہر حال میں چمٹے رہتے ہیں۔ ان اصولوں میں سر فہرست شدت کی تقلیدی ذہنیت ہے۔

اس لحاظ سے یہ قابل داد ہیں کہ انہوں نے ظالمانہ مسلط کردہ جنگ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اوربالآخر دشمنوں کے تسلط سے اپنی مادر وطن کو آزاد کرالیا لیکن میدان جنگ میں دشمن کے چھکے چھڑانا اور چیز ہے ملک چلانا اور چیز۔ جس طرح دور چھپے ہوئے دشمن پر نشانہ لگانے کے لئے ظاہری بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ملک کو ترقی کے نشانے تک پہنچانے کے لئے سیاسی بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے اور یہ ثابت بھی ہو چکا ہے کہ طالبان میدان جنگ کے نڈر سپاہی ہیں لیکن میدان سیاست میں اب تک وہ ایک ناکام طالب علم کی حیثیت ہی رکھتے ہیں۔

درالخلافہ کابل پر اپنا اقتدارحاصل کرنے کے بعدابھی تک بھی آئینی حکومت بنانے میں ان کی ناکامی ان میں سیاسی بصیرت کی فقدان کی طرف واضح اشارہ ہے۔موجودہ دور معلوم دنیا کی تاریخ کا سب سے تیز رفتار دور ہے ہوسکتا ہے آنے والا دور اس سے بھی تیز رفتار ہو۔ حالات دن بدن نہیں گھنٹہ بگھنٹہ نہیں لمحہ لمحہ بدل رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے اصحاب مسند اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اس لمحہ لمحہ بدلتے ہوئے حالات میں ان کی کسی بھی بات پر فیصلہ لینے میں ایک ہلکی سی تاخیر بھی انہیں برسوں پیچھے کر سکتی ہے۔ سیاسی بصیرت سے مالامال یہ مقتدر طبقہ نہ صرف بر وقت فیصلہ کرنے میں ید طولیٰ رکھتا ہے بلکہ اپنے علم اور تجربہ کے بل پر مستقبل کو بھی اپنے پیچھے لگا لیتا ہے۔

ایسے میں طالبان کی اپنی ماضی سے چمٹے رہنے کی ضد، سیاسی فیصلہ لینے میں ان کی تاخیر پتہ نہیں انہیں اور کتنے سال پیچھے لے جا کر چھوڑے گی۔ایسا لگتا ہے امریکہ،طالبان کی نفسیات سے خوب واقف ہے۔ وہ یہ بھی اچھی طرح سمجھ چکا تھاکہ عالمی سطح پر افغانستان میں اس کو ایک غاضب طاقت ہی سمجھا جاتا رہا ہے جس کی وجہ سے خود امریکہ میں بھی اس کی شبیہ بری طرح متاثر ہوئی۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا اور اس کے عوام یہ بات جان لیں کہ افغانستان میں وہ امن قائم کرنے گیا تھا، وہاں اس کا مقصدغلط نہیں تھا۔ اور طالبان حکومت چلانے کے ہنر سے واقف نہیں ہیں،وہ کچھ بھی ہوسکتے ہیں لیکن امن پسند نہیں ہوسکتے۔

افغانستان میں ان کے ہاتھوں ایک منصفانہ نظام حکومت قائم ہونا جس میں عورتوں اور اقلیتوں کی آزادی کا احترام ہو ناممکن ہے۔ ایسا لگتا ہے امریکہ اپنی اس بات کو ثابت کرنے میں ابھی تک کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے۔ آج کل طالبان جس انداز سے افغانستان کو لے کر چل رہے ہیں اس سے اب تو یہ بات واضح ہونے لگی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس جنگ کا اخلاقی فاتح امریکہ ہی قرار پائے گا اور انصاف پسند دنیا امریکہ کے موقف کو صحیح تسلیم کرلے گی۔اگرا یسا ہوا تو اس کی مکمل ذمہ داری طالبان پر ہی عائد ہوگی۔اسلام کوئی روایتی مذہب نہیں ایک امن پسند دین ہے۔ وہ انسانوں کو پر امن زندگی گذارنے کے لئے رسوم و رواج نہیں اصول دیتا ہے۔ ان اصولوں کے تحت اگر کوئی انسان یا معاشرہ زندگی گذارنا شروع کردے تو امن قائم ہونا یقینی ہے۔

موجودہ دور کے مسلمانوں کی سب سے بڑی بدقسمتی کہیں یا غلطی یہی ہے کہ وہ اسلام کو ایک دین کے طور پر نہیں ایک مذہب کے طور پر ماننے لگیں ہیں جس کی وجہ سے جو مقصود ہے وہ حاصل نہیں ہورہا ہے۔ بات اسی پر ختم نہیں ہے بلکہ صدیوں سے مسلمانوں کے یہاں اقتدار پر قابض مذہبی ٹھیکداروں، سرمایہ داروں اور مقتدر طبقہ نے مسلمانوں کو ملوکیت کی جال میں اس بری طرح الجھا رکھا ہے کہ وہ حقیقی اسلامی آزادی کے تعلق سے کچھ بھی نہیں جانتے۔ انہیں پتہ ہی نہیں کہ قرآن و سنت میں جس اسلامی معاشرے کی تصویر کھنچی گئی ہے اس میں مرد کا دائرہ اختیار کیا ہے، عورت کا دائرہ اختیار کیا ہے، حاکم کو کیسے منتخب کیا جاتا ہے اور کس حد تک کون کون اس کی باز پرسی کر سکتا ہے۔ ان میں کی اکثریت یہ بھی نہیں جانتی کہ اسلام، معیشت کے حوالے سے کس قسم کے اصول دیتا ہے اور اس پر کاربند ہونے سے کس درجہ کی اقتصادی خوش حالی آسکتی ہے۔

انسان کی بہتری کے لئے اس کے ہر شعبہء حیات کے لئے خدائی آئین رکھنے والے دین کو صرف اس کے تعزیری قوانین (جن میں حالات کے لحاظ سے حاکم وقت کو تبدیلی کا بھی اختیار ہے) کے حوالے سے پیش کرنا اس کے ساتھ سخت نا انصافی ہی نہیں اسے کلی طور پر نہ سمجھنے کی دلیل بھی ہے۔ ملوکیت زدہ ذہنیت کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ وہ مذہب کے نام پر پڑھائی گئی پٹیوں سے آگے سوچتا ہی نہیں، بھلے سے اس کے سامنے دین کے صحیح اصول بھی قرآن وسنت کی روشنی میں کیوں نہ واضح کر دئے جائیں۔ جہاں تک طالبان کا تعلق ہے وہ ایک ایسے مذہب کی پیروی کررہے ہیں جس میں اولیت ان کے روایات اور رسوم ورواج کو حاصل ہے۔ اس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ بظاہر ان کے رسوم و رواج اور روایات میں اسلامی پن جھلکتا ہے لیکن حقیقی اسلام سے وہ اب بھی کوسوں دور ہیں۔ عورت ان کے نزدیک ایک شجر ممنوعہ ہے لیکن اسلام اس بات کا قطعی قائل نہیں ہے۔ وہ عورت کومعاشرے کا ایک اہم کردار سمجھتا ہے اور تمام تعمیری کاموں میں اس کی شرکت کا قائل ہی نہیں چند مقامات پر ضروری سمجھتا ہے۔

اسلام اپنے اصولوں پربنا جنسی تفریق کے علم و ہنر کو تمام انسانوں میں پھیلانے کی بات کرتا ہے اور انسانوں کو اس کے حصو ل کے لئے ابھارتا ہے۔فنون لطیفہ ہو یا سائنس، ہر وہ چیز جس سے انسان اور انسانیت کو فائدہ پہنچے اسلام کے نزدیک قابل قبول ہے جب تک وہ اس کے اصول سے نہ ٹکراتے ہوں یا کسی تخریب کی طرف مائل نہ کرتے ہوں۔ان باتوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو طالبان، اسلام کا نام لے کر جو حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں اس میں اور حقیقی اسلامی حکومت میں واضح فرق نظر آئے گا۔آج جب کہ پوری دنیا مواصلاتی اعتبار سے ہو یا سفری اعتبار سے ایک چھوٹے سے قریے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اپنے آپ کو سبھوں سے کاٹ کر ایک الگ ہی قسم کی دنیا بسانے کی کوشش کرنا اور وہ بھی ایک ایسے عالمی دین کے نام پر جو چودہ سو سال پہلے ہی سبھی آسمانی مذاہب کے ماننے والوں کو ایک خدا کے نام پر مجتمع ہونے کی دعوت دے چکا ہو، تاکہ دنیا میں امن قائم ہو سکے، انتہائی نادانی ہے۔

طالبان کی موجودہ روش سے یہ آشکار ہونے لگا ہے کہ وہ افغانستان کو ایک ایسے سیاسی جزیرے میں تبدیل کرنے کے لئے بے تاب ہورہے ہیں جو حالات کے جوار بھاٹا میں کبھی بھی ڈوب سکتا ہے۔ افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ خدا کی طرف سے عطا کردہ ایک بہترین موقع کو روایات کی بھول بھلیوں میں الجھ کر وہ بے دردی سے گنوا رہے ہیں جب کہ ذرا سی کوشش اورسوچ میں تھوڑی سی تبدیلی سے ساری دنیا کے سامنے وہ حقیقی  اسلام کا ایک مکمل نمونہ پیش کر سکتے ہیں۔ پتہ نہیں کب افغانستان کے عوام کو ایسے مخلص حکمران نصیب ہوں گے جو ہر قسم کی علاقائی، مسلکی، مذہبی عصبیت سے اوپر اٹھ کردین اسلام کے اصولوں پر اپنے وطن کی ترقی اور امن کے لئے کوشاں ہوں گے۔ کب انہیں بے روزگاری، غربت اور بھکمری سے نجات ملے گی۔ ایسا تبھی ممکن ہے جب افغان عوام خود اپنے آپ کو پہچان کراس کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اقبال نے بہت پہلے یہ بات کہہ دی ہے۔

موسم اچھا، پانی وافر، مٹی بھی زرخیز
جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان
اپنی خودی پہچان او غافل افغان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!