تازہ خبریںٹاپ اسٹوری

مظفرنگر میں تاریخ ساز ’کسان مہاپنچایت‘، راکیش ٹکیت نے کہا ’ملک کا آئین خطرے میں ہے‘۔

مظفرنگر کی سڑکوں پر کسانوں کا سیلاب نظر آیا۔ میدان میں لاکھوں لوگ موجود ہیں اور میدان کے باہر بھی اتنے ہی لوگ موجود ہیں جنہیں اندر جگہ نہیں مل سکی

مظفرنگر: زرعی قوانین کے خلاف سنیوکت کسان مورچہ کی اپیل پر مظفرنگر کے جی آئی سی میدان پر کسانوں کی عظیم الشان کسان مہاپنچایت چل رہی ہے۔ بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیت تقریباً 10 مہینے کے بعد اپنے آبائی ضلع میں پہنچے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک بل واپسی نہیں ہوگا وہ گھر واپس نہیں جائیں گے۔ دریں اثنا، مظفرنگر کی سڑکوں پر کسانوں کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ میدان میں لاکھوں لوگ موجود تھے اور میدان کے باہر بھی اتنے ہی لوگ موجود ہیں جنہیں اندر جگہ نہیں مل سکی۔

مظفرنگر شہر کی سڑکوں پر مہاپنچایت میں آنے والے لوگوں کے لئے پورا انتظام کیا گیا تھا۔ کہیں پوری کچوڑی بٹ رہی تھی، کہیں چاول اور کڑھی چاول تھے اور جگہ جگہ بھنڈارے کا اعلان ہو رہا تھا۔ ہر جگہ کھانے کا انتظام ہے مگر کھانے میں لوگوں کی کوئی دلچسپی نہیں دیکھی گئی، وہ صرف میدان میں پہنچنا چاہ رہے تھے۔ دونوں طرف سے آنے جانے والوں سے سڑکیں پوری طرح بھر چکی ہیں۔

یوں محسوس ہو رہا تھا گویا تمام راستے مظفرنگر کے جی آئی سی میدان کی طرف جا رہے ہیں۔ ہر طرف سے کہیں ٹریکٹر، کہیں بسوں اور کہیں موٹر سائیکلوں پر بھارتیہ کسان یونین، سنیوکت کسان مورچہ کے جھنڈے لے کر جگہ جگہ سے لوگ یہاں آ رہے تھے۔ میڈیا کوریج کے لیے آنے والے نمائندے بھی تقریباً 4 کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد جی آئی سی میدان تک پہنچے۔

کسان مہاپنچایت کے لئے جی آئی سی میدان پر بڑا سا اسٹج بنایا گیا ہے، جس پر بڑی تعداد میں لیڈران موجود ہیں۔ یہاں ہر کھاپ کا ایک ذمہ دار نظر آرہا تھا اور ہر ایک کی کوشش ہے کہ انہیں ایک یا دو منٹ بولنے کی اجازت دی جائے۔ یہاں پر لاکھوں کی تعداد میں جو لوگ موجود رہے ان میں حکومت کے خلاف بہت غصہ دیکھنے کو ملا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مرکزی حکومت اور یوپی کی حکومت سے تنگ آچکے ہیں۔

مہاپنچایت میں موجود جم ٖغفیر کو دیکھ کر احساس ہورہا تھا کہ سماج کا ہر طبقہ یہاں اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے پہنچا ہے۔ 12 بجے کے قریب بھی میدان میں لوگوں کے پہنچنے کا سلسلہ جاری رہا اور جیسے ہی راکیش ٹکیت میدان تک پہنچے بڑی تعداد میں لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔

مہاپنچایت میں ہرعمر لے لوگ نظر آرہے تھے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود رہی تو بزرگ بھی اتنی ہی تعداد میں نظر آرہے تھے۔ حاضرین جس جوش کے ساتھ یہاں پہنچ رہے تھے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں زرعی قوانین اور مرکزی حکومت کے خلاف بہت غصہ ہے۔ اس کے علاوہ یہاں مہنگائی کا مسئلہ بھی اٹھایا جا رہا تھا۔

راکیش ٹکیت تقریباً 10 مہینے بعد اپنے ضلع مظفرنگر میں پہنچے ہیں۔ اس کے باوجود اسٹیج سے لگاتار اعلان کیا جا رہا تھا کہ راکیش ٹکیت اس وقت تک اپنے گھر نہیں جائیں گے جب تک زرعی قوانین کو حکومت واپس نہیں لے لیتی۔ ان کا نعرہ ہے ’بل واپسی نہیں تو گھر واپسی نہیں۔‘

مظفرنگر کی کسان مہاپنچایت میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شریک رہی جن کے لئے علیحدہ انتظامات کئے گئے۔ راستہ میں کئی ٹول ٹیکس پڑے لیکن کہیں کوئی پیسہ نہیں لیا گیا۔ پولیس فورسز بڑی تعداد میں یہاں موجود تھے لیکن وہ خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہے تھے اور انہیں کسی طرح کی مداخلت کی ضرورت نہیں پڑ رہی تھی کیونکہ سنیوکت کسان مورچہ کے رضاکار یہاں کا پورا نظام سنبھال رہے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!