“دعا کرتی ہوں کہ دوبارہ انسانوں کا چہرہ مت دکھانا…. “
از قلم : ابن ایاز معاذ عمری (طالب علم یم.اے جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن، مانو حیدرآباد)
ایک تڑپتی سسکتی ہوئی آواز, چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ جسکے پیچھے بلا کا کرب نہاں, ندی کے کنارے ایک بنت حوا یہ کہتی ہوئی کہ “میں ہواؤں کی طرح بہنا چاہتی ہوں” کتنی معصومانہ خواہش؟, یک طرفہ محبت کی ستائی ہوئی لڑکی, حالات کی ستم ظریفیوں کی شکار, ماں اور باپ کے منانے اور مقدس واسطے دینے پر بھی نہ ماننا؟؟؟ مطلب ! کس انتہا کو وہ پہنچی ہوگی؟, دنیوی جہنم سے آزادی کی ایسی کوشش ! کہ دوبارہ کسی انسان کا چہرہ تک دیکھنا اسے گوارا نہیں ؟؟؟
ہائے رے انسانیت !!!!
یہ سوچنے پر مجبور کرگئی وہ لڑکی کہ
کیا انسان اپنی دانست میں ترقیوں کی اوج ثریا پر کمندیں ڈال کر بھی اس قدر نیچے گرسکتا ہے اور اتنا گھٹیا بن سکتا ہے کہ اپنی ہی سوسائٹی کو دانستہ ختم کرنے کا سبب وہ بن جائے؟؟؟
جاتے جاتے ایسی دل دہلادینے والی ویڈیو چھوڑ گئی کہ ایک بار دیکھیں تو دوبارہ دیکھنے کی تاب باقی نہ رہے….
یقیناً خودکشی مسئلہ کا حل نہیں بلکہ یہ خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور شرعی نکتہ نظر سے تو یہ باقاعدہ متفقہ طور پر کبائر میں شامل ہے اور فتوتاً حرام تک ہے…
(واللہ اعلم بالصواب)
لیکن
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ
خودکشی کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں, یہ بہت ہمت جگر کا کام ہے, اس اقدام کیلئے اس نے کہاں تک ہمت جٹائی ہوگی اور کس مسکراتے چہرے کے ساتھ اس دنیا سے چلی گئی…. اندازہ لگانا نہایت ہی دشوار لگ رہا ہے…
یہاں پر یہ بھی ایک قابل غور نکتہ ہے کہ
ایک مجبور بےبس بیوی,محبت میں ہاری ہوئی اور حالات کی ماری ہوئی لڑکی کے ناطے وہ مرنا چاہتی تھی خود کو ختم کرنا چاہتی تھی
لیکن
بحیثیت انسان اسکے اندر بھی زندہ رہنے اور جینے کی تڑپ اور چاہت ضرور باقی تھی اور دل کے کسی کونے میں ایک امید یہ بھی تھی کہ شاید کوئی مجھے بچا لے, کیونکہ وہ خود اپنے الفاظ میں کہہ رہی تھی کہ اگر بچ گئی تو ماں باپ کے گھر رہوں گی…..
آہ موت ایک ایسی حقیقت کہ جس نے اچھے اچھوں کے چھکے چھڑا دیئے اور ایک وہ لڑکی جس نے دنیا کو اپنی شعوری نگاہ سے ابھی دیکھنا شروع ہی کیا تھا کہ وہ خود اس موت کو آگے بڑھ کر گلے لگاتی ہے !
اس کے اس اقدام پر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ
وہ کونسے محرکات تھے جو اس سانحے کے ذمہ دار ہیں ؟
اگر دقیق جائزے سے صَرفِ نظر صرف ویڈیو کی بنیاد پر ہی فیصلہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ
محبت اور جہیز اس واقعہ کے ذمہ دار ہیں !!!
لیکن
میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جہاں یہ ظاہری اسباب ذمہ دار ہیں وہیں پر کہیں نہ کہیں میں اور آپ بھی اس واقعہ کے ذمہ دار ہیں, جنہوں نے ایک ناسور کو بڑھاوا دیا یا خاموش تماشائی بنے رہے اور آج یہ نتیجہ سامنے ہے…
یقیناً شریعت اسلامیہ میں
جہیز جسے معاشرے کا ناسور کہا گیا صد فیصدی درست ہے اور ایسے واقعات کبھی کبھی رونما ہوکر اس کی شدید شناعت کی وضاحت کردیتے ہیں
لہذا
ایک مہذب سماج کو چاہئے کہ وہ اسلامی فرامین کو کبھی فراموش نہ کرے کیونکہ
انسان جس معاشرے اور سوسائٹی کی بنیاد ڈالتا ہے اس میں نقائص کا ہونا ایک لازمی امر ہے لیکن معاشرے کا خالقِ حقیقی اگر خود گائیڈ لائنز تیار کرتا ہے تو وہ سب سے بہترین خالص اور مفید ترین ہوتی ہیں…
شاید اسی لئے حفیظ میرٹھی نے کہا تھا :
ان اہل علم و دانش کے ناقص ہیں سارے منصوبے
انساں کو بنانے والا ہی انساں کے مسائل جانے ہے
لہذا اسلامی تعلیمات کو عملی زندگی میں لانا نہایت ہی ضروری ہے…
………………..
اب یہ عائشہ کا معاملہ ہو یا کسی بھی خودکشی کرنے والے مرد یا عورت کا قصہ ہو … ایک سوال یہ ہے کہ
“کیا ایسے خودکشی کرنے والے لوگوں سے ہمدردی کرنا چاہئے؟”
جوابات مختلف ہوسکتے ہیں
لیکن
ایک جواب یہ بھی ہے کہ
خودکشی کرنے والے سے ہمدردی مطلب ایک قاتل سے ہمدردی ہے
قاتل اس لئے برا ہے کیونکہ وہ دوسروں کا قتل کرتا ہے اور اگر کوئی خود اپنا قتل کرے تو وہ برا نہیں ہے ؟؟؟
بلکہ ایک قاتل سے زیادہ شناعت کا وہ مستحق ہے جو خود کی جان لے لیتا ہے,اور خود اپنی فیملی اور خاندان کے آنسوؤں کا ذمہ دار بنتا ہے
لہذا
ایک جان کے ضائع ہونے پر افسوس ضرور ہونا چاہئے
لیکن
ایسی ہمدردیاں زیادہ نہ ہوں کہ موجودہ معاشرے کی چکاچوند میں نوخیز ذہن یہ سمجھ بیٹھیں کہ آخری صورت میں خودکشی ہی بہترین راستہ ہے
کیونکہ
ہمیں موجودہ حالات سے سے نجات مل جائے گی اور بعد میں دنیا جہاں کی ہمدردیاں ہمارے اہل خانہ کو حاصل ہوں گیں, لہذا ہم یہ راستہ ہی اختیار کر لیں تو بہت ہی اچھا ہوگا….
حالانکہ ایسی سچویشن میں مذہب اسلام کے نظامِ طلاق و خلع کی اہمیت کھل کر سامنے آتی ہے کہ
شوہر,بیوی سے تنگ ہے یا بیوی, شوہر سے تنگ ہے اور باہم ازدواجی گزارا ناممکن کی حد تک پہنچ چکا ہو تو جائز طریقے سے علیحدگی اختیار کی جائے نہ کہ خود کشی………
اب ایک اور بات یہ کہ
اس عائشہ کے واقعے میں سوشل میڈیا پر اس کے شوہر عارف اور اسکے اہل خانہ کو ذمہ دار کہا جارہا ہے,اور تو اور ذرا تہذیبی خط سے نیچے کے لوگ تو باقاعدہ گالی گلوچ کے ذریعہ اس عجیب سی وحشت میں خود کو تسکین پہنچا رہے ہیں
گرچہ اس لڑکی کے مطابق وہ شخص نہایت ہی سنگ دل,بدتمیز اور بد اخلاق معلوم ہوتا ہے کہ
جب اس نے کہا کہ “مرنے جارہی ہوں” تو جواباً شوہر نے کہا تھا کہ
“ویڈیو بنا کر بھیج دینا”
لیکن
میں یہ کہنا چاہوں گا کہ
فیصلہ کبھی بھی ایک طرفہ دلائل کو مد نظر رکھتے ہوئے نہیں کیا جاتا
بلکہ
مقابل کی بات, اسکے حالات اور مکمل سچویشن کو سمجھنے کے بعد کسی فیصلے کو اختیار کرنا اہل خرد کا شیوہ ہوا کرتا ہے,
لہذا
واقعے کی سنگینی کے پیش نظر اس کے والدین سے ہمدردی ضرور ہے لیکن حقائق سے آگاہی بھی اشد ضروری ہے…
یہاں سے ایک نکتہ یہ بھی واضح کرکے اپنے الفاظ کے دائرے کو سمیٹنا چاہوں گا کہ
ہمارے الفاظ نہایت ہی اہمیت کے حامل ہوا کرتے ہیں, کب کس پر کیسے اثر انداز ہوں, یہ کبھی کہا نہیں جاسکتا
لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی گفتگو میں الفاظ کے استعمال پر باریکی سے نظر رکھیں اور معاشرے کی ہر برائی سے بچنے اور سب کو بچانے کی فکر کریں…
دعا ہیکہ اللہ تعالیٰ سب سے پہلے راقم السطور کو پھر قارئین اور ساری انسانیت کو نیک توفیق عنایت فرمائے
اور سب سے اہم دعا یہ ہے کہ ائے اللہ امت کی کسی دوسری بیٹی کو ایسی “عائشہ” بننے سے محفوظ و مامون فرمائے اور امّاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح اپنا کردار بنانے کی سعادت نصیب فرمائے
آمین ثم آمین