مسلمانوں کی کٹر پنتھی سوچ اور سیکولرزم کا نظریہ
عمر فراھی
لداخ میں چین اور بھارت کے درمیان ہوئی جھڑپ کے دوران کسی نیوز چینل کے اینکر نے ایک فوجی ایکسپرٹ سے سوال کیا کہ آخر یہ LAC لائن آف ایکچول کنٹرول کا اصل مسئلہ کیا ہے ۔ایکسپرٹ نے جواب دیا کہ اصل میں یہ چین کی دادا گری ہے ۔چین نے ابھی تک لائن آف کنٹرول کو مانا ہی نہیں ہے ۔اگر وہ ایک بار بھی اپنی طرف سے واضح کر دے کہ ہماری لائن آف کنٹرول دلی تک ہے تو بھی ہم مان لیں کہ اب وہ اس کے آگے اپنا دعویٰ نہیں پیش کرے گا اور پھر اس بنیاد پر کوئی گفتگو کی شروعات ہو سکتی ہے ۔مگر جب اس نے اپنی طرف سے کسی حد پر رضا مندی ہی ظاہر نہیں کی ہے تو پھر وہ کب کہاں تک کا دعویٰ کردے کسے پتہ ۔
تقریبآ یہی رویہ مسلمانوں کے تعلق سے سیکولرزم کی تفہیم اور تعبیر کا بھی ہے ۔وہ لوگ جومسلمانوں کو کٹر پنتھی کہتے ہیں انہوں نے اپنے دماغوں میں کہاں تک مسلمانوں کے تئیں ان کے سیکولر ہونے کی حد مقرر کر رکھی ہے پتہ نہیں لیکن یہ میرا کالج وغیرہ میں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ تجربہ رہا ہے کہ اکثر یہ لڑکے نماز پڑھنے اور داڑھی رکھنے والے مسلم لڑکوں کو کٹر پنتھی سمجھتے تھے ۔مگر وہ مسلمان لڑکے جو ان کےتہواروں میں شامل ہوکر ہولی اور دیوالی مناتے یا بیئر باروں وغیرہ میں جاکر شراب وغیرہ پیتے انہیں open mind یعنی روشن خیال کہا جاتا ہے۔ایک بار کاواقعہ ہے ایک ہندو کاروباری ساتھی نے پوچھا عمر بھائی آپ کے کتنے بچے ہیں۔ میں نے کہا بس پانچ ۔حیرت سے کہتا ہے پانچ !پھر پوچھتا ہے کہاں پڑھتے ہیں میں نے کہا انجمن میں ۔اس نے کہا انجمن میں ! اردو میڈیم ! ۔میں نے کہا تعجب کی کیا بات ہے ۔کہتا ہے یار تم خود انجینیئر ہو کم سے کم بچوں کو کانونٹ میں تو ڈالنا تھا ۔خیر وہ چلا گیا اور بعد میں ایک دوسرے ہندو ساتھی سے کہتا ہے کہ عمر بھائی تو بہت کٹر پنتھی سوچ کے ہیں ۔میں نے دل میں سوچا اگر کہیں میں نے اسے یہ بھی بتا دیا ہوتا کہ ہمارے یہاں حجاب کی پابندی بھی ہوتی ہے تو سمجھتا کہ میں طالبانی ہوں ! اس عنوان پر لکھنے کیلئے مجھے
ہمارے ایک مضمون پر کسی حسان اعظمی کے اس تبصرے نے مجبور کیا کہ
“جناب آپ کے مضامین میں کافی عرصے سے پڑھتا ہوں ۔ایک بات جو مجھے اچھی نہیں لگتی وہ آپکی کٹر پنتھی سوچ ہے”
ان کی سوچ پر مجھے افسوس نہیں ہے۔وحیدالدین خان صاحب ایک زمانے سے مسلمانوں کی کٹر پنتھی سوچ کے خلاف صلح حدیبیہ کی مثال پیش کرتے ہوئے کبھی نہیں تھکے۔مرحوم ڈاکٹر رفیق زکریا نے تو اپنے ایک مضمون ” ہندو مسلمانون سے نفرت کیوں کرتے ہیں “میں مسلمانوں کو جدید دور کے تقاضے سے ہم آہنگ ہونے کیلئے چار شادیوں کے قرآنی اصول اور زیادہ بچے پیدا کرنے کی فطری روایت سے دستبردار ہونے کا بھی مشورہ دیا تھا۔
میں کہتا ہوں جب جدید جمہوری فتنوں کی افہام و تفہیم کے حوالے سے لبرل مصنفین کو اپنے نظریہ لبرلزم کمیونزم سیکولرزم اور فحاشی ازم پر بکواس کرنے کی آزادی ہے اور دنیا اسے برداشت کر رہی ہے تو پھر اسلام اور مسلمانوں کی بات کرنے والوں کو ہی کٹر پنتھی کہنے کا کیا مطلب ۔غور کریں تو سورہ انفال اور سورہ توبہ میں قرآن نے تو بہت ہی سخت بات کی ہے ۔ قرآن میں یہ بات کون کہہ رہا ہے۔ اسے کیا نام دیں گے؟
ویسے اپنے مذہب اور اپنے عقیدے کیلئے بنیاد پرست اور کٹر پنتھی ہونا معیوب بات کیوں ہے ۔برا تو جب ہے جب کوئی کسی کے عقیدے کے خلاف جبر کرے ۔جیسا کہ قرآن بھی لااکراہ فی الدین کی بات کرتا ہے ۔ باقی اگر کسی مسلمان لیڈر کے داڑھی نہ رکھنے اور مسلم مجلس وغیرہ کے نام سے اس کے کٹر پنتھی ہونے کی بو آتی ہے تو یہ کام کشمیر کے شیخ عبداللہ بھی کر چکے ہیں ۔پہلے وہ داڑھی میں تھے اور ان کی ہر محفل کی شروعات قرآن و حدیث کے حوالے اور نعت پاک سے ہوتی تھی ۔ بعد میں انہوں نے داڑھی کٹواکر اپنی پارٹی مسلم کانفرنس کا نام بھی نیشنل کانفرنس کر لیا ۔کشمیریوں کو شیخ عبداللہ کی روشن خیالی سے کیا ملا ۔جس طرح شیخ عبداللہ نے خود کو کترنا شروع کیا نہرو جی نے کشمیر کو کترنا شروع کر دیا۔شیخ وزیراعظم سے وزیرِ اعلی ہو گئے اور اب امیت شاہ جی نے پورا کتر دیا اور کشمیری نہ صرف آرٹیکل 370 سے محروم کر دئیے گئے کشمیر ایک ریاست سے دو حصوں میں کتر کر یونین ٹریٹری میں بانٹ دیا گیا۔ حزب اللہ سے حزب الطاغوت کی گود میں پناہ لینے والی بہت سی شخصیتوں اور قوموں کا حشر اچھا نہیں ہوا۔
جسے اللہ ہی عزت نہ دینا چاہے اور جسے اللہ ہی ذلیل کرنا چاہے طاغوت کے تازہ خداؤں کو خوش کرنے کیلئے کسی بھی اسلامی شعار سے بغاوت اور انحراف ذلت اور رسوائی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اپنے نظریات کے تحت کٹر تو سارے ہی ہیں لیکن بہت ہی منظم سازش کے تحت صرف مسلمانوں کیلئے ہی بنیاد پرست اور کٹر پنتھی ہونے کی بات اس لئے کی جاتی ہے تاکہ مسلمانوں کی نئی نسل اپنے شعار سے نفرت کرتے ہوئے فکری ارتداد سے حقیقی ارتداد کا شکار ہو جائے اور ہم نے دیکھا بھی اور دیکھ بھی رہے ہیں کہ کس طرح پڑھے لکھے نوجوان اگر داڑھی رکھنا معیوب سمجھتے ہیں تو پڑھی لکھی عورتیں نہ صرف حجاب کو دو بچوں سے زیادہ کی ماں کہلوانا پسماندگی اور جہالت کی علامت سمجھنے لگی ہیں ۔جہاں تیزی کے ساتھ مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کر رہی ہیں مسلم لڑکے بھی غیر مسلم لڑکیوں کو اسلام میں داخل کئے بغیر کورٹ میرج کر رہے ہیں۔ شاید یہی سیکولرزم ہے۔