سلام اُس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
ساجد محمود شیخ
امریکی مُصنف ڈاکٹر مائیکل ہارٹ نے دنیا کی تاریخ ساز اور عبقری شخصیات کے کارناموں کا جائزہ لینے کے بعد ایسے لوگوں کی درجہ بندی کی جنہوں نے دینا پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ برسوں کی عرق ریزی کے بعد جن سو ہستیوں کے نام ترتیب دیئے اُن میں اسلام کے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کو پہلے نمبر پر رکھا ہے ۔ مائیکل ہارٹ ہوں یا دوسرے دانشور ہوں پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعریف یوں ہی نہیں کی ہے بلکہ رسول اکرمؐ وہ ہستی ہیں کہ جن کی تعلیمات انسانی زندگی کے ہر پہلو اور گوشہ کا احاطہ کرتی ہیں۔دورِ حاضر کی تمام مشکلات اور مصائب کا حل رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں موجود ہے ۔وہ ایک بہترین معلّم،فلسفی ،داعیٔ اعظم ،مصلح قوم اور قائدِ انقلاب تھے۔ آپؐ ایک ایسے مصلح قوم نہیں تھے جنہوں نے صرف اپنے زمانے میں انسانیت پر اثرات ڈالے ہوں بلکہ اُن کی پاک تعلیمات و سیرت قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے مفید و ضروری ہیں ۔
پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سماجی انصاف کے علمبردار تھے اور اپنی تعلیمات کے ذریعے سماج کے کمزور طبقات کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کی۔ کوئی سماجی ومعاشی طور پر مستحکم اور خوشحال نہیں کہا جاسکتا اگر اس کے کمزور،محروم اور پسماندہ افراد اور طبقوں کے حقوق ادا نہ کئے جائیں اور وہ کمزور طبقات معاشرے میں اپنے کو محفوظ و مامون تصوّر نہ کریں۔حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یتیموں،بیواؤں،غریب رشتے داروں،مسکینوں اور معذور افراد کے حقوق ادا کرنے کی تاکید فرمائی۔انھوں نے کمزور افراد کے لئے کوشش کرنے کو ثواب کا ذریعہ بنایا تھا۔حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا بیواؤں اور یتیموں کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والا مجاہد فی سبیل اللّٰہ کی مانند ہے یا اس شخص کے برابر ہے جو مسلسل دن میں روزہ رکھے اور راتوں میں قیام کرے ( صحیح البخاری)
۔حضرت سہل بن سعد سے مروی ہے انہوں نے نبیؐ کو فرماتے سنا میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے کہ آپؐ نے انگشتِ شہادت اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا ( صحیح البخاری سماج میں جو لوگ مالی حیثیت سے کمزور ہوتے ہیں اور معاشی دوڑ دھوپ میں پچھے رہ جانے کے سبب دوسروں کے دستِ نگر اور محتاج ہوتے ہیں انہیں اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا ہے انہیں بوجھ سمجھا جاتا ہے ۔ اللہ کے رسولؐ نے ان کے حقوق بیان کئے اور ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کی تلقین کی اور فرمایا تمہیں تمہارے کمزوروں ہی کی وجہ سے رزق دیا جاتا اور مدد کی جاتی ہے ۔ ( البخاری) ایک اور حدیث میں فرمایا مسکین کو کھانا کھلاؤ اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرو (احمد)
اس زمانے میں عورتوں کی کوئی حیثیت نہ تھی انھیں مردوں سے فروتر سمجھا جاتا تھا اور بسا اوقات ان کے ساتھ غیر انسانی رویہ اختیار کیا جاتا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں مردوں کے برابر مقام عطا کیا اور اِن پر دست درازی سے منع فرمایا آپ نے بیویوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرمایا جو خود کھاتے ہو وہ انہیں بھی کھلاؤ،جو خود پہنتے ہو وہ انہیں بھی پہناؤ نہ ان کے ساتھ مارپیٹ کرو اور نہ انہیں بُرا بھلا کہو ( ابو داؤد)
حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے زمانے میں سب سے زیادہ کمزور اور بے وقعت غلاموں کا طبقہ تھا ۔ انہیں کسی طرح کی آزادی اور اختیار حاصل نہیں تھا۔ اُن کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ ان پر ہر طرح کا ظلم اور زیادتی روا رکھی جاتی تھی۔آپؐ نے ان غلاموں کو بنیادی انسانی حق عطا کئے فرمایا” تمہارے یہ غلام تمہارے بھائی ہیں اللّہ سبحانہ وتعالیٰ نے نے انہیں تمہارے زیرِدست رکھا ہے پس جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو اسے وہ کھلائے جو خود کھاتا ہو اور وہ پہنائے جو خود پہنتا ہو ( بخاری ) آپؐ نے مالکوں کو اپنے غلاموں پر ناروا سلوک و زیادتی سے روکا اور انہیں آزاد کرنے کی ترغیب دی،آپؐ نے فرمایا جو شخص اپنے غلام کو کسی وجہ سے مارے اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کردے ( مسلم شریف )
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے محنت مزدوری کرنے والے مزدوروں کی حوصلہ افزائی کی اور اُن کے حقوق متعین کئے چنانچہ فرماتے ہیں” مزدور کی مزدوری اُس کا پسینہ خشک ھونے سے پہلے دے دو ( سنن ابی ماجہ ) ایک دوسری حدیث میں آپ نے صراحت کی مزدور کی مزدوری کم کرنا گناہِ کبیرہ ہے ۔( السنن الکبریٰ) نبیؐ مزدور کی مزدوری متعین کرنے سے پہلے اس سے کام لینے سے منع فرماتے تھے ( مسند احمد) گھریلو خادموں سے حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی اور فرمایا جب تم میں سے کسی کا خادم اس کا کھانا لے کر آئے تو وہ اُسے اپنے ساتھ دسترخوان پر نہ بٹھا سکے تو اُسے اس میں ایک دو لقمہ دے دو کیونکہ کھانا تیار کرنے کی زحمت اُسی نے اُٹھائی ہے ۔( صحیح بخاری ) اور اپنے خادموں کی غلطیاں دن میں ستّر بار معاف کرنے کو کہا ( سنن ابی داؤد)
معذوروں سے اچھا سلوک کرنے کو کہا۔کسی نابینا کی مدد کرنے کو صدقہ قرار دیا ہے۔حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے ساتھ چلو بنی واقف کے ایک بصیر کی عیادت کریں اور وہ نابینا شخص تھا۔ آپؐ نے فرمایا اللہ کی لعنت ہو اس شخص پر جس نے اندھے کو راستے سے بھٹکایا ۔ پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے قیدیوں سے حسنِ سلوک کی نصیحت کی۔ اُس زمانے میں دستور تھا کہ قیدیوں کو ہتھکڑی اور بیڑیاں لگا کر روزانہ جیل سے باہر نکالا جاتا تھا اور وہ سڑکوں پر بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے تھے رسول اکرمؐ نے اپنے زمانے میں اس پر پابندی لگا دی تھی۔ اسلام میں مذہبی جبر کی سخت ممانعت ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے صراحت کردی کہ قیدی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کیا جائے اس سے اسلامی قانون کی یہ دفعہ اسلامی تاریخ میں مسلّم ہوگئی کہ قیدیوں کو بھی مکمّل آزادی حاصل ہے ۔انھوں نے قیدیوں کے ساتھ وحشت وبربریت اور درندگی کا معاملہ کرنے سے منع فرمایا تھا۔
اللّہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سماج کے کمزور، معذور اور محروم طبقات کے حقوق کی ضمانت دی اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی مسلمانوں کو تلقین فرمائی اور اہلِ ایمان نے معاشرے کے تمام افراد اور طبقوں کی بھرپور اعانت کی تب جا کر وہ ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جسے ہم حقیقی معنوں میں مثالی معاشرہ کہہ سکتے ہیں ۔ ہر سال ربیع الاول کے مہینے میں مسلمان میلادالنبی کی محفلیں منعقد کرتے ہیں اور جلوس نکالتے ہیں مگر افسوس کہ حضرت محمدؐ کی وجہ زندگی کے روشن پہلوؤں کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتے ہیں ۔