مولانا مودودی، جماعت اسلامی اور موجودہ منظر نامہ
ڈاکٹر عمیر انس
یہ کوئی ۲۰۰۶ کی بات ہے، میں مولانا وحید الدین خان صاحب سے ملاقات کے لیے انکے گھر گیا تھا، اتفاق سے ہمارے علاوہ کوئی اور نہ تھا اس لیے گفتگو میں سوال و جواب کا موقعہ بھی زیادہ تھا، میں نے طالب علمی میں خان صاحب کو خوب پڑھ لیا تھا، بہت متاثر تھا انکے طرز اظہار سے، آسان ترین پیرائے میں مشکل ترین بات بیان کر دیتے ہیں، انکی مستقل کتابوں میں پیغمبر انقلاب، مارکسزم جسے تاریخ رد کر چکی ہے، خاتون اسلام اور علم جدید کا چیلنج بہت پسند آئی تھی، مولنا مودودی سے انکے اختلافات کو بھی خوب پڑھا تھا، فکر مودودی اور فکر وحید میں فرق سمجھنے کے لیے میں نے بڑی مشکل سے ایک قدرے مشکل سوال تیار کیا، سوال کا خلاصۃ یہ ہےکہ ذاتی زندگی میں مسلمان ہونا آسان ہے معاشرتی زندگی میں مسلمان ہونا بہت مشکل ہے، بس یہ آخری سوال ثابت ہوا، مولنا نے ناراضگی کے ساتھ ٹافیاں دیں اور فرمایا پہلے دماغ کو مودودی سے ڈی کنڈیشن کرو، یہ لفظ بھی پہلی بار ان سے سنا، میں آج تک یہ سوچتا ہوں کہ وہ کیا بات ہے جہاں سے میرے سوال میں مودودی جھلک رہا تھا، بعد کے دنوں میں میں نے مولانا مودودی کا تنقیدی مطالعہ بھی خوب کیا،
مذہبی طبقے کی “تنقید” نہیں بلکہ جدید اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کی تنقید پڑھیں، بلکہ اسلام کی مذہبی فکر پر تنقیدی مطالعہ کا موقعہ ملا، مودودی کی عظمت کا اندازہ مودودی کے ناقدین کو ہی پڑھ کر ہوا، اپنوں نے تو محبت اور عقیدت میں انکی فکر کو بھی ایک مزار بنا دیا ہے، لیکن مغربی دنیا کے ناقدین نے انکی خطرناک فکر کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، اس فکر کا خلاصۃ یہ ہےکہ اسلام جیسے۔فرد کو مسلمان بناتا ہے ویسے ہی معاشرہ اور ریاست کو بھی عملی مسلمان بنانے کا مطالبہ کرتا ہے، اور مولانا مودودی نے دعویٰ کیا کہ معاشرہ اور ریاست کا بھی اللہ کی حاکمیت کا تابع ہونا ضروری ہے، اور سب۔سے بڑا دعویٰ یہ کیا کہ اگر معاشرہ اور ریاست اللہ کی حاکمیت تسلیم نہیں کرتے تو نہ ایک مسلمان مسلمان رہ سکتا ہے اور نہ ایک عام غیر مسلم ایک بہتر انسانی زندگی کا تصور کر سکتا ہے، دلچسپ بات یہ ہےکہ مغربی دنیا میں مولانا کی تنقید انکے اسی دعوے پر ہے،
لیکن مدارس میں ان پر تنقید انکی داڑھی کرتا پر مرکوز رہی، اگر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنے زمانے میں ہی ایک عوامی مفکر بن جاتے اور مدرسہ اور تصوف سے باہر نکل کر مودودی کی طرح میدان عمل میں ہوتے تو جنوبی ایشیا کا موجود نقشِہ کبھی وجود میں نہ آتا، شاہ صاحب کا زمانہ ہی بالکل صحیح زمانہ تھا جب وطنی ریاست کی بنیاد ہندوستان میں رکھی جارہی تھی اور مولانا مودودی کی زمانے میں اسے قانونی شکل دے دی گئی،۔
مولانا مودودی کے پاس حالات کو بدلنے کا کوئی متبادل ہی نہیں تھا، انہیں صرف قبول کرنا تھا، ہاں اگر مولانا مودودی پاکستان جانے کے بجائے ہندوستان میں ہی رک جاتے تو شاید اسلامی سیاست کی تصویر مختلف ہوتی، مولانا پاکستان کیوں گئے یہ بات میرے کبھی سمجھ میں نہیں آئی، شاید وہ ہندوستان میں دیوبندی طبقے کی “تنقیدوں” سے بہت زیادہ نالاں تھے اور انہیں ڈر تھا کہ آزاد ہندوستان میں یہ تنقیدیں انکی توجہ کو اصل مقصد سے ہٹانے میں کہیں کامیاب نہ ہو جائیں، ورنہ مولانا مودودی کی اپنے خطبہ مدراس میں ہندوستانی مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیئے والی بات کسی اور عالم دین نے کبھی نہیں کہی، مدرسوں اور مولویوں کی مولانا مودودی سے بغض اور بے اعتمادی تقریباً خود کش تھی، کسی مدرسے نے فکر اسلامی کو علاقائی زبانوں میں منتقل کرنے کی تحریک نہیں برپا کی، یہاں تک کہ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی اور مولانا منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہما نے بھی ایک۔طویل مدت تک غیر مسلم۔حضرات میں اسلام کا تعارف کرانے کے موضوع پر اس طرح سے متوجہ نہیں ہوئے جیسے کہ اپنے آخری سالوں میں ہوئے، پھر مولانا سجاد نعمانی صاحب نے اس موضوع پر بھر پور توجہ دی لیکن انکا طریقہ فکر بھی منظم ہونے کی بجائے انکی شخصیت کے ارد گرد طواف کرتا ہے،
مولانا مودودی کی سب سے شاندار بات جو انہیں سبھی علمائے کرام سے ممتاز اور بلند کر دیتی ہے وہ یہ ہےکہ مولانا مودودی نے اپنی شخصیت کو کبھی اپنی فکر اور تحریک کا مرکز نہیں بننے دیا، انہیں اپنے آپ کو اپنے معاصر علماء سے کہیں زیادہ خود کو القاب میں پکارے جانے کا موقع اور حق تھا لیکن انہوں نہ خود کو عوام کے درمیان انکے جیسا اور انکے برابر بیٹھنے والا بن کر مدرسہ اور محراب میں قید اسلامی عمل کو گھروں، گلیوں، کالج کیمپس اور ہاسٹلز تک لے گئے، اگر مولانا مودودی حضرت مودودی بن جاتے تو شاید وہ اسلامی تحریک کا وہ ماڈل کبھی پیش نہیں کر پاتے جسے پیش کرنے سے مولانا مودودی سے بھی زیادہ روشن دماغ شاہ ولی اللہ دہلوی کرنے سے چوک گئے اور آزادی کے بعد آج بھی سارے مولوی چوک رہے ہیں، انکو لگتا ہے کہ تجدید اور احیاء کا کام کسی معجزانہ شخصیت کا کام ہے،
مولانا مودودی نے بتایا کہ مجددانہ عمل اب شخصیتوں کے بس کی بات نہیں، وہ منظم فکر اور منظم تحریک کے ذریعے ہی ممکن ہے خواہ اس تحریک کو جماعت اسلامی پکاریں، تحریک ندوہ بلائیں، تحریک تبلیغ کا نام دیں، تحریک اہل حدیث کہیں، یا جمیعت العلماء بلائیں، جماعت اسلامی کی سب سے بڑی ناکامی شاید یہی ہے کہ وہ ملت کی باقی مخلص روحوں کو یہ بات سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوئی، اور خود کو بھی آنے والے دنوں میں ایک منظم تحریک سے تنگ نظر مولویوں کے مدرسے میں بدلنے سے روک نہیں پائی، ہاں شخصیت کے بجائے جماعت ازم انکی مقدس گائے ہو گئی، جماعت اسلامی سے تحریک کی روح آہستہ آہستہ جدا ہو رہی ہے، اور اسکا احساس خود اہل جماعت کو ہے!