خواتینسماجیمضامین

حکم ربی ہے حجاب۔۔۔

(بموقع: عالمی یوم حجاب ۴ستمبر)

✍? شازیہ عرش ماہ بنت نقیب خان، عمرکھیڑ، مہاراشٹر

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے ۔(سورۃ الأحزاب ۵۹)

اسلام دین فطرت ہے نیز ایک بہترین ضابطہ حیات کے ذریعے پاکیزہ ،صالح،باحیاءمعاشرہ کا ترجمانی کرتا ہے۔ جہاں سبھی کو اپنے حقوق حاصل ہیں۔عورت کے تحفظ کے لئے ایسے قواعد مقرر کیےگئے جو ہر فطرت سلیم قبول کرتی ہے۔پردے کا حکم دے کر اسلام نے عورت کو عزت و تکریم کے اعلی مقام عطا کیا۔حجاب عربی اور پردہ فارسی لفظ ہےجس کے معنی آڑ،حیاء،برقع،نقاب کے ہوتے ہیں۔حجاب عربی لغت میں ۲ چیزوں کے درمیان حائل ہوجانے والی اس آڑ یا اوٹ کا نام ہے جس کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے سے او جھل ہو جاتے ہیں۔ حجاب اسلامی شعار ، امت مسلمہ کا تشخص اور حجاب کا مقصد سترپوشی‌ کرنا نیز فتنے سے بچانا ہے۔

حجاب محض سر پر ڈھانکے جانے والا کپڑا نہیں بلکہ مسلم و پاکیزہ عورت کی شناخت اورعصمت کا محافظ ہے۔حقیقی حُسن بے حیا ئی و بے حجابی میں نہیں بلکہ حقیقی حسن وہ ہے جو آنکھوں کو حیاء اور دل کو ایمان وتقویٰ سے معمور کریں۔ حجاب کا تعلق نظر، زبان اور لباس سے ہے۔ شرم وحیاء عورت کا زیور ہے اور پردہ و حیاء دونوں باہم مشروط ہیں۔

رسول اللہ کا ارشاد ہے:
’’عورت پوشیدہ چیز ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک جھانک میں لگا رہتا ہے۔‘‘ (ترمذی)۔
نیز فرمایا:
’’جب تجھ میں حیاء نہیں تو پھر جو تیرا دل چا ہے کرے۔‘‘(بخاری)۔

اسلام آرائش کا حکم دیتا ہے نمائش کا نہیں جبکہ مو جودہ معاشرے میں اظہار ِحسن و جما ل کی خوا ہش نے عورت کے ذہنوں پر تسلط جماکربےحیائی میں مبتلا کر دیا ہے۔ کہیں فن کے نام پر، کہیں ترقی کے نام پر، کہیں آرٹ کے نام پرعورت کی نہ صرف شرف ِنسوانیت پامال کی ہے بلکہ مغرب کی اندھی تقلید نے عورت کو بے حیائی کی دلدل میں گھسیٹ کرمسلم خاندان کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔
رسول اللہ کا ارشاد ِ مبارک ہے:
’’حیا ء اور ایمان ایک دوسرے کے ساتھی ہیں ،جب ایک اٹھ جاتا ہے تودوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ ‘‘(مشکوٰۃ)۔

کسی بھی معاشرے کی تعمیر میں خاندان ریڑھ کی ہڈی ہے۔ مضبوط و مستحکم خاندان قوی معاشرے کی بنیادی اکا ئی ہے۔ آزادیٔ نسواں کی آڑ میں بے حجابی کے فروغ نے موجودہ ملحدانہ اور لا دینی نظام پر مبنی معا شر ہ قا ئم کر کے عورت کی تحقیر و تذلیل کی ہے۔کوئی بھی قوم اس وقت تک زوال پذیر نہیں ہو تی جب تک اسکی عورتیں زیور ِحیاء سے مزین اور مرد شمشیرِغیرت سے مسلح ہوں۔ ہر دین کا ایک خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خلق حیاء ہے۔حجاب حکم الہٰی ہے اور بدکاری و بد نظری سے بچاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے عورت کو تبرج الجاہلیہ کی ساتھ نکلنے سے منع فرمایا ہے ۔ تبرج سے مراد عورت کی زینت اور محاسن کی نمائش ہے۔ حجاب کا اصل مقصد عورت اور مرد کے آزادانہ اختلاط میں رکاوٹ قائم کرکے فحاشی و بے حیائی کا سد باب کرکے پاکیزہ معاشرہ وجود میں لانا ہے۔ باحجاب عورت کے لئے معاشی ترقی کی راہیں کھلی ہیں اور حجاب اعلیٰ تعلیم اورترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ۔ فی الحقیقت حجاب خاموش دعوتِ دین ہے اور دل کا پردہ،آنکھ میں حیاء اور نیت کی پاکیزگی کا عملی اظہار حجاب ہے۔ غرض یہ کہ فرمان رسول اللہ کےمطابق:
’’ حیاء ایمان میں سے ہے اور ایمان کا راستہ جنت ہے ۔بے حیائی کوڑا کرکٹ ہے اور کوڑا کرکٹ آگ میں لے جاتا ہے۔‘‘ (ترمذی)۔

حجاب عورت کو آزادی، تحفظ، شناخت، عزت و وقار عطا کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حجاب اختیار کرکے حیاء و عفت کی مضبوط ڈھال اپنے گرد قائم کرلی جائے اور ارد گرد بے حیائی، فحاشی ،بے حجابی کے فروغ کی روک تھام میں اپنی بھر پور کوشش کی جائے اور اصلا حِ معاشرہ میں اپنا بھر پور حصہ ڈالا جائے۔

ام خلاد رضی اللہ عنہ:
غزوۂ خندق کے فوراً بعد جب غزوۂ بنی قریظہ پیش آیا تو حضرت خلاد ؓ نے اس غزوہ میں جامِ شہادت نوش فرمایا ۔ جب ماں کواپنے بیٹے کی شہادت کا پتہ چلا تو یہ اپنے گھر سے ان کی میت دیکھنے کے لیے روانہ ہوئیں ۔ ظاہر ہے کہ بیٹے کی جدائی کا صدمہ دل میں ہو گا لیکن ایسے موقع پر بھی انہوں نے اپنا نقاب پہنا۔ جب یہ اُس جگہ پہنچیں جہاں ان کے صاحبزادے کی میت رکھی ہوئی تھی تو کئی لوگوں کے منہ سے یہ جملہ نکل گیا کہ ’’ اپنے بیٹے کی میت پر آئی ہیں اور اس حال میں بھی نقاب کر رکھا ہے ‘‘یہ ام خلاد رضی اللہ عنہ تھی ۔انہوں نے اس بات کے جواب میں جو جملہ ارشاد فرمایا وہ ایک طرف تو اُن کے عزم و حوصلہ اور جرأت و استقامت کا ثبوت ہے تو دوسری طرف ایک مسلمان خاتون کے لیے اپنے دل پر نقش کرلینے کے قابل ہے ۔ انہوں نے لوگوں کے جواب میں یوں کہا :
’’ ان قتل ابنی فلن ارزا حیائی ‘‘
( اگر میرا بیٹا شہید ہوا تو میری حیاء تو نہیں رخصت ہو گئی )

“عالمی یومِ حجاب: تحفظ حجاب کے عزم نو کا دن”
۲ستمبر۲۰۰۳ فرانس میں اسکارف پر پابندی کا قانون منظور کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں امت کے حساس طبیعت طبقہ میں اس کے خلاف غم اور غصے کی لہر دوڑ پڑی۔لہذا لندن کے مئیر لونگ اسٹون نے لندن میں امت مسلمہ کے سرکردہ علماء اور اسلامی تحریکوں کے سربراہان کو بلاکر ایک کانفرنس منعقد کی۔۳۰۰کے قریب مندوبین شریک ہوئے اور اس کی صدارت عالم دین اسلامی اسکالر علامہ یوسف القرضاوی نے کی نیز انہوں نے ۴ستمبرکو عالمی یومِ حجاب منانے کا اعلان کیا۔اس طرح ۴ستمبر ۲۰۰۴سے یہ پورے عالم میں منایا جاتا ہے۔ یہ دن اسلامی تہذیب وثقافت کو اجاگر کرنے کا دن ہے ۔یہ دن خواتین اسلام کیلئے نہیں بلکہ پوری دنیا کی خواتین کیلئے پیغام امن وآتشی کی نوید سناتاہے کیونکہ یہ حجاب اب مسلمان عورت کی آزادی کی علامت بن کر ابھرا ہے ۔ یہ ہمارا فخر، ہمارا وقار، ہمارا افتخاراورہماری زینت بن گیاہے اور سب سے بڑی بات کہ اس کا حکم قرآن میں ہے اور اس حکم کو اختیار کر کے ایک مسلم عورت خود کو محفوظ سمجھتی ہے اور یہ پاکیزہ معاشرے کی علامت کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب، ثقافت روایات کا علمبردار بھی ہے
پہلی شہید الحجاب:
یکم‌جولائی ۲۰۰۹ کو۳۲سالہ محترمہ مروہ الشربینی جرمنی میں حجاب کے جرم میں شہید کی گئی ۔ستمبر کا مہینہ اپنے ساتھ شہیدہ ’مروہ الشربینی‘کی یاد لاتا ہے۔ جن کو تمام مسلم خواتین نے ’شہیدالحجاب‘ کا لقب دیا ان کا جرم اس کے سوا کیا تھا کہ وہ شعارِ اسلامی حجاب کو اتارنا نہیں چاہتی تھیں،ہمعصرمعاشرہ جس کو اپنی آزاد خیالی پر ناز ہے اوراس کو کپڑے کا ایک ٹکڑا برداشت کرنا مشکل ہوگیا۔ لہٰذا عین عدالت کے کمرے میں انہیں جج کے سامنے شہید کردیا گیا۔ کپڑے کا یہ ٹکڑا جس کو حجاب کہتے ہیں مسلم خواتین کا شعار ہے۔ لیکن متعدد لوگ کپڑے کے اس ٹکڑے کے لیے نامناسب الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ اْن کے خیال میں حجاب ظلم و ستم اور تقسیم کا نشان ہے۔ لیکن ان کے لیے یہ کہنا مناسب نہیں کیوں کہ اسلام میں حجاب پر بحث و مباحثے کی گنجائش نہیں۔

بقول شاعر:
رخساروں پر غازہ کی چمک زلف بریدہ
دہراتی ہوئی مغربی فیشن کا قصیدہ
رفتار کی شوخی سے عیاں حسن کا اظہار
لفظوں کی ٹپکتی ہوئی عریانی کا گفتار
عریاں تیری تہذیب کا دلکش یہ نظارہ
مشرق‌کی خواتین کو ہو گا نہ گوارہ

آج آزادی نسواں کی تحریک نے نہ صرف خاندانی نظام کو تباہ وبربادکردیاہے۔بلکہ اسے مادہ پرستی اور اخلاق وکردار کے زوال کی طرف دھکیل دیاہے ۔عورت کو خریدو فروخت کا ذریعہ بنانے والی تہذیب میڈیا کے ذریعے باحیاء خواتین کو بھی ایسے ایسے طریقے سکھارہے ہیں کہ وہ مادہ پرستی اور فیشن پرستی کی اس دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش مصروف ہیں۔اخلاق سوز مناظر، حیاء سوز پروگرامات نیز مادہ پرستی کی اس دوڑ میں مسلم معاشرے سے اس کی پہچان کو چھین لیا۔

عورت کو اﷲ تعالٰی نے فطری طور پر شرم وحیاء کا پیکر بنایاہے ۔ اسے حجاب کے بیش قیمت تحفے سے نوازاہے ۔بے حجابی کے جو منفی اثرات معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کررہے ہیں اور ہماری نسل کو تباہی اور بربادی کی طرف دھکیل رہے ہیں اس سے محفوظ رکھنے کا بندوبست کرنا فرض منصبی کا تقاضہ ہے۔ آج امت مسلمہ کے تمام مسائل کا حل قرآن کے عملی نظام میں محفوظ ہے ۔

بقول شاعر۔
اک زندہ حقیقت میرے سینہ میں ہے مستور
کیا سمجھے گاوہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم تمام کو حکم الٰہی کا پابند بنائیں۔
آمین یارب ذوالجلال والاکرام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!