حالات حاضرہ سورۃ الکھف کی روشنی میں
ازقلم: ڈاکٹر عظمیٰ خلیق الزماں خان، کلیان مہاراشٹرا
آج سورہ کھف پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی تو اللہ تعالی کی بزرگی، برتری اور قرآن کے ایک ایک لفظ کی سچائی ظاہر ہونے لگی ۔اور ہر بار کی طرح اس بار بھی یہ بات سمجھ میں آ ئی کہ قرآن مجید کو جب پڑھا جائے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ آ ج ھی ہمارے لئے نازل ہوا ہے
سورہ کھف میں تین قصے بیان کیے گئے ہیں ۔
پہلا قصہ
پہلےحصے میں اصحاب کھف کاذکر ہیں ،جو ہمیں توحید پر ہر حال میں قائم رہنے کی ہدایت دیتا ہے۔ چاہےہمارےسامنے کتنی ہی ظالم حکومت یا بادشاہ کیوں نہ ہو ہمیں ہر حال میں ایمان پر قائم رہنا ہیں ۔اور چاہے ہم تعداد میں کتنے ہی کم کیوں نہ ہو۔ابھی کچھ ہی دنوں کی بات ہےمسلمانوں کو(NRC & CAA) کی شکل میں ایمان کا خطرہ محسوس ہوا توجن لوگوں کے ایمان زندہ تھے انھوں نے اپنی دن رات ان تھک محنتوں سے ہزاروں کوششیں کی۔یہ لوگ میری نظر میں اصحاب کھف کی ہی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اور یہ جوآج ہم(Quarantine) ہوۓ ہیں نہ یہ وہ غار ہیں’ جہاں سے بیٹھکر ہمیں اپنے رب کومنانا ہیں۔ آج ضرورت اس عھد کی ہیں کہ ہے ہم اس غار سے اپنے واحد رب ﷲ کوجو ہم سے ناراض ہے اسی راضی کرلے۔
دوسراقصہ
موسی علیہ السلام اورخصرعلیہ السلام کا جو ہمیں یہ بات سکھاتاہیۓک ہمیں ہر بات میں ﷲکی مصلحت تلاش کرنی چاہیے۔ جیسا کہ اس وقت کوروناوائرس کی وبا پھیلنی ہے اس میں بھی ﷲکی مصلحت ہوگی۔ بس ہم صبر کے ساتھ وبائی سنتوں پر عمل کریں ۔ جلد ہی ہم پر ﷲکی مصلحت ظاہرہوگی۔
تیسرا قصہ
ذوالقرنین کاقصہ، جس میں ہمیں آداب بادشاہہی کا پتہ چلتا ہے کہ جب ذوالقرنین کو یاجوج و ماجوج سے چھٹکارا پانے کی اپیل کیی جاتی ہے تو ساتھ میں جزیہ دیتے کی پیشکش کی جاتی ہے تو وہ منع کرتے ہیں اور اپنے خزانے کھول کر مدد کرتے ہیں ۔اور اپنی عقلمندی سےلوہےاور تانبے کا ایک بند تعمیر کرتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ آ ج سے ہزاروں سال پہلے بھی ہنگامی حالات میں عقلمندانہ تجویز اور سائنس و ٹیکنالوجی کومدنظر رکھنا کتناضروری تھا۔