مضامینمعلوماتی

ارطغل ڈرامہ: اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں

خان مبشرہ فردوس، اورنگ آباد

ہر انسان کا کسی بھی چیز کو دیکھنے, سمجھنے اور پیش کرنے کا انداز اسکے فہم اور استعداد فہم۔پر موقوف ہوتا ہے
یقین مانیں ارطغل کو دیکھنے کے بعد جس قدر خوشی ہوئی اتنا ہی تکلیف اس سے جڑے گروپس میں اس کو سمجھنے والی پوسٹ دیکھ کر ہورہی ہے ۔
بے شمار تبصرے اس ڈرامے پر پڑھے ہیں مثبت بھی کچھ تھے منفی تو بے شمار ہیں فتوی بھی بے حساب تھے
کسی نے کہا کہ خواتین کا عشق و محبت قابل اعتراض ہے, کسی نے بے پردگی کو ٹارگیٹ کیا

کسی نے قتل اور سفاکی کو نشانہ بنایا
کسی نے کہا کہ سافٹ بم ہے
کسی اس ڈرامے کے ولن کردار کو موجودہ سیاسی کشاکش سے جوڑنے پر اکتفا کیا
کسی نے کہا ترکی نسل پرستی ریس ازم کا پیغام غالب ہے ۔

کسی نے کہا فکشن نگاری سے مغلوب تاریخ گردانا تو
کسی نے رمضان کے متبرک لمحات میں شیطانی کی کوشش بھی کہا ۔
بھارت میں ہوئے حالیہ احتجاج کو ارطغل ڈرامے کی تحریک کا شاخسانہ بھی کہنے سے بعض نے گریز نہ کیا,
کسی نے روحانی پہلو پر ضرب کی تو کسی کا نشانہ علماء پر دیکھا۔
کسی کو ڈرامے کی شادیوں پر اعتراض ہے
سو جتنے منہ اتنی باتیں

سوال یہ ہے کہ یہ جو بھی ہے ہر فردکے جدگانہ زاویہ نگاہ اور فہم استعداد پر موقوف ہے ۔۔کسی عام سیزن گیم آف تھرون یا کسی پر اتنے منفی تبصرے نہ سنے نہ پڑھے
لیکن ارطغل کو دیکھنے والوں کی نگاہ اس کی آفاقیت سے ہٹ کر بہت سطحی تبصروں سے متعلق نظر آئی ۔
حالانکہ پسند کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے ۔
ہم ان اشعار کے تناظر میں اسے دیکھا

اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا

تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار ، تو ثابت وہ سیارا

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

ہم نے یہ سمجھا کہ وحدت امت کا تصور پورے ڈرامے کا اولین مقصد ہے
حق جس قدر مضبوط ہو باطل کی کوشش بھی اس سے دوگنی مضبوط ہوگی ۔۔ہاں آپ غلبہءدین کا مقصد رکھتے ہوں بشرط یہ کہ رکھتے ہوں” تو آپ کی کوشش باطل کے مقابلے کے لیے اس سے ڈبل ہوگی اور ڈبل سے بڑھ کر وہ اس وقت ہوگی جب آپ کا یقین ہوکہ فتح و نصرت اللہ طرف سے ہے ۔۔۔آہا ۔۔اس ُپرلطف بات کو کوئی اپنی حِسیات کے ساتھ محسوس تو کر دیکھے
لطف ڈبل ہوگا ۔
ڈرامے میں زیادہ توجہ خارجی عوامل سے زیادہ داخلی انتشار پر ہے کیونکہ کسی حسن انتظام کو سب سے بڑا نقصان خارجی عوامل پہنچاتے ہیں یہ واضح کیا کہ کس طرح خارجی عوامل انتشار اور معصیت کا شکار بناکر خود منتظم کو بدنام کرکے خالقِ نظامِ عالم پر حرف گیری پر مجبور کرتا ہے ۔ یہ سب سے اھم نقطہ ہے کہ ہم اسلامی نظام کو بالکل من وعن نافذ کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور پھر مسلمانوں کے زوال کو اسلام کے نظام کا زوال بتانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ کمزوری ہمارے داخلی انتشار اور کمزور ایمان میں ہے ۔۔۔جسے اس ڈرامے میں۔لفظ ” خائن ” سے واضح ہوگا
اسلام کے ساتھ بڑی غداری یا خیانت یہی ہے کہ اسکے احکامات کو من وعن نافذ کرنے کوشش نہ کرتے ہوئے ذاتی مفاد کو مقدم رکھیں ۔

غور کرنے پر یہ بھی واضح ہوگا مقصد کی آفاقیت, جب فرد پر واضح ہوتی ہے تب فرد کا ارتقاء کی بنیادی اساس ایمان پر ہوتی ہے اور ایمان انسان کو اپنی روایت کا امین ۔۔بناتا ۔۔۔روایت دراصل ڈرامے میں شریعت کے متبادل لفظ استعمال ہوا ۔

فرد پر جب مقصد واضح ہوتو کس طرح خاندان, خاندانی استحکام, اقرابا کے جذبات کا خیال رکھنا, کس طرح افراد خاندان کو بھی مقصد سے باندھنا,
, معاشرے میں تبلیغ سے زیادہ عملی کردار پر توجہ مرکوز کرنا,

کس طرح معاملات زندگی کو قرانی احکام سے باندھا جاتا ہے
کس طرح ہر فرد اپنے دائرے کار میں رہتے ہوئے ایمان اور مقصد وجود کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جڑا ہے ۔

اسلام میں خواتین کے اختیارات پر اگر کوئی سوال اٹھائے تو اس ڈرامے سے کردار پیش کیجیے کہ
” آیا اسلام نے خواتین کو خاندانی نظام کے استحکام کا ذریعہ بنایا یا اسے عضوءِ معطل گردانا, نہ وہ اس ڈرامے میں مردوں کا کھلونہ ہے نہ بیکار شئے ہے بلکہ مکمل وجود کی حیثیت سے تسلیم کی گئی ۔
ھندوستانی معاشرے میں جس قدر سوالات اٹھ سکتے ہیں خواتین کے حوالے سے ہمیں یہ ڈرامہ سب کا جواب نظر آیا
سب سے بڑھ کر رشتے اور تعلق کسی مادی مفاد میں الجھ کر نہیں رہ جاتے ہر فرد آفاقی مقصد سے جڑ جاتا ہے ۔ ایک مستحکم خاندانی نظام جوڑنے کے لیے ہر دو کی کوشش اور محبت و الفت میں الحب للہ کا تصور, ,
کہیں بھی آپ کو بے جا پند ونصائح نہیں ملے گا بلکہ پیش آئیند حالات پر بطور رہنمائی قران و حدیث اور سیرت کے حوالے ۔۔جو حالات سے نکلنے کا کنایہ بنتے ہیں یا, حوصلہ بخشتے ہیں ۔

عدل وقسط کی بنیاد, جسے عدالت کا لفظ استعمال ہوا انصاف, حسن انتظام, قیام امن,
روحانی بالیدگی کے لیے تجدید ایمان , دعوت دین کی کوشش کے لیے ہمہ جہت صلاحیت اور نرم خو کردار, ,, اپنی صلاحیتوں بروئے کار لاکر کس طرح افراد سے انکی صلاحتوں سے کام لیا جائے ۔
ایک فرد کا ایمان ہوکہ اسلامی نظام ‘ غلبہءِ دین کا جوش یہ احساس دلایا گیا کہ یہ بے یقینی شئے نہیں
جس کے حوصلے سخت حالات میں پست ہوں تو وہ اس ڈرامے کو دیکھکر سمجھ لے کہ خدا کسی بندے سے ترسیل کا کام لینا چاہے یا اقامت دین کا تو اس کے مقصد کو بالکل واضح اس کے عقل خرد پر کردیتا ہے اور اگر ترسیلکا کام لینا چاہے تو اس طرح بھی لے سکتا ہے ۔

یہ بات واضح کی گئی اس ڈرامے میں کہ
, دیگر جتنے نظریات و افکار اس کے مقابل ہیں نام نہاد امن کے پیامبر کس طرح اپنے جلو میں دعوے امن رکھتے ہوئے فساد فی الارض کے بانی بنتے ہیں کس طرح آفاقیت کا نظریہ کی مالا جپنے والے ذاتی مفاد کے اسیر ہوکر دنیا کو دھوکہ دیتے ہیں ۔ دنیا میں آپ کے وجود کی بقا, کا راز اسی میں پنہاں ہے کہ آپ اپنے اوپر مکمل دین کو نافذ کریں فطرت خود بخود لالے کی حنا بندے کرلے گی ۔

اس پر توجہ دلائی ہے

منتظم اعلی کو کونسی صفات سے متّصف ہونا چاہیے, اور کار جہاں بانی سے پہلے کار جہاں بینی کے لیے کونسی روحانی سطح درکار ہے ان سب کا خیال رکھا ۔

آپ کو ہر مسلک ہر گروہ ہر تنظیم کی بنیادی مقاصد اس ڈرامے میں ملے گے جس سے ہم نے یہ جانا کہ ہم باوجود مختلف نظریات کے ایک مقصد اور ایک ہی جھنڈے کے تلے ہیں ۔۔۔انہی اختلاف میں اتحاد کا مضبوط پیغام اس ڈرامے کا ہے

اب کوئی اس پر واقعی بات کرنا چاہتا ہے تو اس ڈرامے کے ہر کردار اور اس کردار کو پیش کرنے میں اعتدال اور پیغام کے پہلو پر بات کرے ۔۔۔

یہ واقعی نظام اسلام کے وضاحت کی کھلی کوشش ہے

کسی فن کار کو اسکا مقصد گرفت میں لے لے تو ایسی کاوشیں سامنے آتی ہے اور جب ترسیل کی باریکیاں اس کاوش سے مترشح ہو تو سمجھیں فنکار خدا کی امانت کو فن میں ڈھال کر پہنچانے میں کامیاب ہے ۔۔۔رب کا ہاتھ اس پر ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!