ریاستوں سےکرناٹک

کجریوال مسلم رہنماؤں کے بارے میں اپنا نظریہ واضح کرے : آل انڈیا امامس کونسل کرناٹک

بنگلور: 5/مئی (پریس ریلیز) سیکریٹری آل انڈیاامام کونسل کرناٹک کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق  آل انڈیا امامس کونسل کرناٹک، ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے ساتھ ہے جمہوری ملک میں بہر صورت سنگھی جابرانہ نظریہ مسترد کیا جاتا ہے۔ اورکجریوال حکومت مسلم رہنماؤں کے بارے میں اپنا نظریہ واضح کرے، دہلی اقلیتی چیئرمین کے خلاف پولیس کارروائی دراصل جواب دہی سے بچنے کی شرمناک کوشش ہے۔

”دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان پر پولیس کی کاروائی، اپنی غلطیوں کو چھپانے اور جواب دَہی سے بچنے کی انتہائی گری ہوئی اور شرمناک کوشش ہے۔ چیئرمین کے خلاف شرپسندوں کے من گھڑت الزامات اور ذمہ داری سے بچنے کی کوشش میں جٹی پولیس کی جانب سے بغاوت کے مقدمہ کی ہم پر زور مذمت کرتے ہیں اور ڈاکٹر ظفرالاسلام صاحب کے ساتھ اظہارِ ہمدردی اور قانونی دفاع میں ہر ممکن تعاون دینے کی حمایت کرتی ہے“۔ ان باتوں کا اظہار آل انڈیا امامس کونسل کرناٹک کے صدر مولانا عتیق الرحمان اشرفی نے میڈیا سے بات کرتے ہوے کیا۔

انھوں نے کہا کہ:”ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے ہمیشہ سے جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہوے، ملک و ملت کی بے لوث خدمات انجام دی ہیں اور دے رہے ہیں۔ ان کی صاف شفاف شخصیت کو مجروح کرنے اور داغدار بنانے کے لیے کی گئی کاروائی کے خلاف دہلی پولیس پر قانونی چارہ جوئی کی آل انڈیا امامس کونسل کرناٹک حمایت کرتی ہے اور تمام ذمہ دارانِ ملک و ملت سے اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون کی اپیل کرتی ہے“۔

مولانا عتیق الرحمان اشرفی نے کہا کہ: ”ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحب جیسی مثالی شخصیت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنا دراصل بی جے پی کی سرپرستی میں ملک بھر میں چل رہی مذہبی نفرت انگیزی، دینی رہنماؤں کی سماجی کردار کشی اور انتہائی نچلی سطح کی سیاسی انتقامی کارروائی کا نتیجہ ہے“۔
انھوں نے کہا کہ: ”ابھی کچھ دن قبل جب فسطائی نظریے سے متأثر کچھ شرپسند دہلی پولیس نے اپنی طرف سے اذان پر پابندی کا اعلان کیا تو انسانی عظمتوں اور اقلیتی حقوق کے محافظ،اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر خان نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوے اس غیر قانونی اقدام پر ردِّ عمل کا اظہار کیا اور پولیس کو نوٹس بھیج کر جواب طلب کیا تھا۔ جس سے بوکھلا کر دہلی پولیس نے ڈاکٹرصاحب کے ٹیوٹ کے خلاف کچھ شر پسندوں کی الزام تراشیوں کو سامنے رکھ کر ان پر بغاوت کا مقدمہ دائر کردیا۔ یہ دہلی پولیس کا انتہائی شرمناک غیر ذمہ دارانہ قدم ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور مقدمہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں“۔

آل انڈیا امامس کونسل کرناٹک کے سیکریٹری حافظ محمداسلم نے کہا کہ: ”بی جے پی حکومت اور سنگھ پریوار کے لوگ CAA کی عوامی مخالفت سے اتنی بوکھلائی ہوئی ہے کہ انھیں دستور و جمہوریت کی بات کرنے والا ہر محب وطن باغی اور غدار نظر آنے لگا ہے؛ اس لیے CAA کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے والے مسلم طلبہ، طالبات، خواتین اور لیڈروں پر اُلٹا سیدھا الزامات لگا کر دیش دروہی کا مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اسی کا شکار ڈاکٹر صاحب کو بھی بنانے کی کوشش چل رہی ہے“۔

سیکریٹری حافظ محمداسلم نے مزیدکہا کہ: ”کجریوال حکومت مسلم رہنماؤں کے سلسلے میں اپنا نظریہ واضح کرے۔ سنگھ کے دستور مخالف ہندوتوا نظریے کو بھارت نے بہت پہلے مسترد کر دیا ہے۔بی جے پی حکومت میں آنے کے بعد سے دو فیصد لوگوں کے اس غیر دستوری نظریے کو سواسو کروڑ بھارتیوں پرزبردستی تھوپنے کی مسلسل کوشش کر رہی ہے۔ اور کجریوال حکومت بڑی خاموشی کے ساتھ تماشائی بنی ہوئی ہے؛ بلکہ طاہر حسین، تبلیغی جماعت اور ڈاکٹر صاحب کے معاملہ سے پتہ چلتا ہے کہ کہیں نہ کہیں دال میں کچھ کالا ہے۔ جسے سواسو کروڑ ہندستانی عوام کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دے گی“۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!