سعودی میں کوڑوں کی سزا ختم کا اعلان: ایک تنقیدی جائزہ
تحریر: محمد شعیب رضا نظامی فیضی گورکھپوری
حجاز مقدس (جسے بدقسمتی سے آج سعودی عربیہ کہا جاتا ہے) یقینا عالم اسلام کے لیے مرکز حقیقی ہے۔ جہاں سے مذہب اسلام کا حسین ستارہ نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو منور کرنے لگا، جہاں سے بانی اسلام نے اس دنیا کو خدا کی وحدانیت کا پیغام حق دیا، بت پرستی کی تاریکیوں سے نکالا، گناہوں کی دلدل سے باہر نکال کر مٹی سے بنے انسان کا کچھ اس طرح بول بالا کیا کہ اسے ہم دوش ثریا کردیا۔
چوں کہ پورے عالم اسلام کو وہیں سے ھدایت کا راستہ ملا اس لیے وہ جگہ شروع اسلام سے لے کر آج بھی تمام مسلمانوں کے لیے ایک ایسے سینٹر کی حیثیت رکھتی ہے جہاں کے ہر ایک حرکات وسکنات پر پورے عالم اسلام کی نہ صرف نظر ہوتی ہے بلکہ دنیا کے ہر خطہ میں بسنے والے اہل ایمان پر اس کے گہرے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے وہاں پر ہونے والے ہر ایک واقعہ کا اسلامی سانچے میں ڈھلا ہونا ضروری ہے مگر صد حیف کہ آج وہاں پہ ایسے ایسے کام ہورہے ہیں جنھیں دیکھ، سن کر خود شیطان بھی شرم سے پانی پانی ہوجائے؛ سنیما گھروں اور قمار بازی کے اڈوں کا قیام، مساج پارلرز کے قیام کا آغاز، سرعام موسیقی اور رقص کی محفلوں کا انعقاد حکومت سعود کے ان ناجائز پالیسیوں میں سرفہرست ہیں جنھوں نے عالم اسلام کو بڑا دھچکا دیا۔ ساتھ ہی امسال شراب جیسی نجس وحرام اور مہلک وجان لیوا چیز کی خرید وفروخت اور استعمال کو باقاعدہ قانون کی پشت پناہی ملنے والی ہے جیسا کہ عالمی خبر رساں ایجینسی “بلومبرگ” نے سال گزشتہ جون میں دعوی کیا تھا۔ اور اب اس سے پہلے مذہب اسلام کے بنائے گئے اس قانون کو تبدیل کیا جارہا ہے جس کی دفعات اور حدیں خود خالق لم یزل اور اس کے پیارے حبیب نے مقرر کر رکھی ہیں
مذہب اسلام نے بہت سارے جرائم میں کوڑوں کی سزا تجویز کی ہے۔ مثلاً (غیر شادی شدہ کے لیے) زناکاری کرنے کی سزا سو کوڑے مقرر ہیں تو شراب نوشی کی سزا اسی کوڑے، اسی طرح کسی پاک دامن خاتون یا مرد پر الزام تراشی کرنے کی سزا ساٹھ کوڑے ہیں۔ یہ سزائیں قرآن وحدیث اور اجماع صحابہ سے ثابت اور اسلامی مملکتوں میں ابتداے اسلام سے رائج ہیں۔ ظاہر سی بات ہے یہ جرائم بہت ہی سخت قسم کے ہیں تبھی ان کی سزا بھی مذہب اسلام نے سخت مقرر کی ہے۔مگر مغربی تہذیب وتمدن کی دل دادہ اور امریکہ و اسرائیل کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی سعودی حکومت نے اب اسے بھی ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘رائٹرز’ کے مطابق سعودی عرب کی اعلیٰ عدالت کے دستاویز کے مطابق رواں ماہ میں کسی وقت لیے گئے سپریم کورٹ کے جنرل کمیشن کے اس فیصلے کے تحت کوڑے مارنے کی سزا کو قید یا جرمانے یا دونوں سے تبدیل کر دیا جائے گا جو فیصلہ فرماں روا شاہ سلمان کی ہدایت اور ولی عہد محمد بن سلمان کی براہ راست نگرانی میں ہوا تھا۔ اور تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ دستاویز میں اس کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ “یہ فیصلہ انسانی حقوق سے متعلق اصلاحات میں توسیع ہے”۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انسانی حقوق واچ کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ ڈویژن کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈم کوگلے نے کہا کہ “سعودی عرب کی راہ میں اس کے غیر منصفانہ عدالتی نظام میں اصلاحات کے لیے اب کوئی رکاوٹ نہیں”۔
اللہ اکبر! کتنے تعجب کی بات ہے کہ مذہب اسلام جس نے انسان تو انسان جانوروں کے حقوق متعین کردیا ہو وہ کسی کو ناحق سزا دینے کا حکم کب دے گا؟ اور جس مذہب اسلام کے نظام کو صاحب تبصرہ نے غیر منصفانہ قرار دیا یہ وہی مذہب ہے جو کبھی خود اذیتی کی بھی اجازت نہیں دیتا وہ دوسروں کو تکلیف پہونچانے کا حق کیوں کر دے گا؟ جس مذہب نے انسان کو اس کی اصل پہچان “اشرف المخلوقات” دی وہ بھلا انھیں اشرف المخلوقات کو بے سبب اذیت دینے کا حکم کیسے صادر کرے گا؟
ہاں وہ گناہ ہی اتنے سخت ہیں کہ ان میں تکلیف دینا ضروری ہے تاکہ وہ پھر کبھی ایسی حرکت نہ کرسکے اور دوسرے بھی متنبہ ہوجائیں کہ کبھی اس طرح کے جرم نہ کریں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو عدل وانصاف کا جنازہ نکلا طے ہے۔ کیوں کہ ہم نے بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ دیگر ممالک جہاں اس طرح کی سزاؤں کا قانون نہیں ہے وہاں مذکورہ جرائم رکنے کا نام نہیں لیتے کیوں کہ مجرم کو چند ماہ یا سال کے لیے قید کردیا جاتا ہے جس سے وہ گھٹن محسوس کرتا ہے، اس کی غیرت وحمیت جواب دینے لگتی ہے اور جب وہ قید سے باہر آتا ہے تو دوبارہ وہی جرم کرنے کی ٹھان کر آتا ہے۔ اور وہ مجرم جسے فقط جرمانہ لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے اس کی تو بہار آجاتی ہے صحیح معنوں میں اسے ایک راستہ مل جاتا ہے کہ چلو جرم کرو اور جرمانے کی رقم دے کر نجات پاجاؤ، نتیجہ سب کے سامنے ہوتا ہے کہ ایک ہی شخص کئی بار وہی جرم کرتا ہے، حتی کہ وہ شخص گناہوں پر جری ہوجاتا ہے اور اس کی دنیا وآخرت سب کچھ تباہ ہوجاتی ہے۔ مگر جب سخت سزائیں ہوتی ہے تو اکثر وبیشتر مجرم راہ راست پر آجاتے ہیں۔ اور دوسرا کوئی نیا مجرم بننے سے پہلے ہزاروں بار سوچتا ہے۔
مگر افسوس صد افسوس کہ ان سعودی حکمرانوں اور شہزادوں کو مغربی تہذیب وثقافت کی ایسی ہوا لگی ہے کہ وہ صرف قرآن وحدیث کے خلاف کرتے نہیں بلکہ احکام خدا ورسول کے مخالف قانون بھی پاس کرتے ہیں۔
افسوس اس بات کا نہیں کہ شراب وشباب کے گرویدہ ان حکمرانوں نے خدا ورسول کے بنائے حدود کو توڑنے کا قانون بنا دیا ہے۔
بلکہ افسوس تو اس بات کا ہے کہ وہ حجاز مقدس کے حکمران ہیں اور خود کو خادم الحرمین الشریفین لکھتے اور کہلاتے ہیں۔ اور کام ایسے کرتے ہیں کہ شیطان پر سبقت لے جائیں۔ جس کا اثر پوری دنیا کے سادہ لوح مسلمانوں پر پڑتا ہے وہ بے چارے سوچتے ہیں کہ جب مکہ،مدینہ جہاں سے اسلام پھیلا ہے وہاں ان برے کاموں پہ کوئی روک نہیں، اتنے سخت جرائم کی معمولی سزا ہے تو پھر ہم لوگوں کے لیے بھی درست ہے۔ جب کہ انھیں معلوم نہیں کہ یہ وہی خدام حرمین شریفین ہیں جو کعبہ کی کمائی سے عیاشی کرتے ہیں۔
اللہ ان شرر وفتن سے امت مسلمہ کو محفوظ فرمائے۔ آمین!