شخصیاتمضامین

ایک ایسا شخص جس سے محبت کا آغاز نفرت سے ہوا۔۔۔

مرزا انور بیگ، میرا روڈ۔ تھانہ

مولانا مودودی کا نام پہلی بار میں نے اپنے پرنسپل جناب سید نصرت مرحوم کی زبانی سنا تھا۔ اس وقت میں آٹھویں جماعت میں تھا۔ انھوں نے بتایا کہ مودودی صاحب دنیا کے سب سے بڑے مولانا ہیں اور انھوں نے چھ جلدوں میں قرآن کی تفسیر لکھی ہے جس کا نام تفہیم القرآن ہے۔
مجھے بڑا تعجب ہوا۔ میں بڑی کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔ تجسس بھی تھا اور تشویش بھی۔ یہ بات ہضم کرنا مشکل ہو رہی تھی کہ دنیا کے سب سے بڑے مولانا وہ کیسے ہیں یا کیوں ہیں؟ میں تو حضرت جی کو سب سے بڑا مولانا مانتا تھا۔

پھر دوبارہ شائد وہ موقع نہیں آیا کہ پرنسپل صاحب نے کسی فری پریڈ میں مولانا مودودی کا ذکر کیا ہو۔ ہر مرتبہ نیا موضوع لے کر پڑھایا کرتے کبھی علامہ اقبال تو کبھی حالی۔
میں تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں میں مصروف رہا کیونکہ مسجد کے مدرسہ میں قرآن پڑھنے جاتے تھے تو روایتی طور پر اسی جماعت سے منسلک رہا یہاں تک کہ سنہ 75 میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی اور پہلی مرتبہ جماعت اسلامی کا نام میں نے بڑی بے ادبی کے ساتھ سنا۔
سنہ 78 میں ہمارے علاقے میں ایک دیوبندی بزرگ عالم کا وعظ رکھا گیا انھوں نے پورے وعظ میں صرف جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کی جم کر دھنائی کی۔ کچھ بزرگ حضرات جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا جو مجھے نہیں پتہ تھا انھوں نے اس کی مخالفت کی۔

یہ سب میری سمجھ سے بالاتر تھا۔ سنہ 79 میں بارہویں کا امتحان دینے کے بعد میں آبائی وطن چھٹیاں منانے چلا گیا۔ دو مہینے بعد ممبئی واپس آیا تو یہاں کی دنیا بدل چکی تھی۔ والد صاحب مرحوم جماعت اسلامی میں شامل ہوچکے تھے۔
انھوں نے تبلیغی جماعت کے تعلق سے کچھ باتیں بتائیں جو میرے لئے کافی رنج کا باعث ہوئیں لیکن یہاں تو بزرگوں کا ایک ٹولہ تھا اور وہاں پینٹ شرٹ والے حلق سے نیچے نہیں اتر رہے تھے۔ یہیں سے بغاوت کے آثار نمودار ہوئے۔

تبلیغی جماعت والوں نے تعصب کا اعلیٰ ترین زہر بھر دیا جس کی وجہ سے جماعت اسلامی اور مولانا مودودی سے سخت نفرت ہوگئی۔ ہمارے ساتھی بزرگ جماعت اسلامی کو آر ایس ایس کے نام سے پکارتے تھے۔ کشمکش جاری رہی۔ جماعت اسلامی کے اجتماع کے پوسٹرز پھاڑنا، رخنے ڈالنا ہفتہ واری درس قرآن میں خلل ڈالنا یہی سب کچھ رہ گیا تھا ساتھ ساتھ لوگوں کو جماعت اسلامی کے خلاف بھڑکانا وغیرہ۔
والد صاحب نے کافی لٹریچر خرید لیا تھا۔ تفہیم القرآن بھی لے آئے تھے جسے دیکھ کر پرنسپل صاحب کی بات یاد آئی مگر اس کے خلاف جو چند سالوں میں ذہن میں زہر بھرا گیا تھا کہ یہ جھوٹ کا پلندہ ہے باوجود تجسس کے اس کے قریب نہیں پھٹکا۔ والد صاحب صبح فجر بعد تفہیم القرآن سناتے اور میں گھر سے باہر چلا جاتا البتہ کان میں کچھ نہ کچھ چلا ہی جاتا جسے فوراً جھٹک دیتا۔

ایک سرد جنگ گھر میں جاری تھی۔
84 میں والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔
88 میں ایک طلبہ تنظیم کو میں نے تفہیم القرآن ہدیتہ دے دی کہ اگر خیر ہوگی تو ثواب ملے گا ورنہ مجھے اس سے چھٹکارا مل جائے گا۔
88 ہی چل رہا تھا اور میں کافی بوریت محسوس کررہا تھا۔ جتنی کتابیں میرے پاس تھیں مثلاً ابن صفی کی تمام، پھر نسیم حجازی وغیرہ کی تمام پڑھ چکا تھا اب پڑھنے کے لئے کچھ تھا نہیں۔ ایک کتاب شمائل ترمذی تھی اسے پڑھنے کی پھر سے کوشش کی مگر اس کی کٹھن اردو کی وجہ سے ایک دو صفحہ سے زیادہ پھر نہیں پڑھ سکا اور رکھ دیا۔ مطالعہ کی عادت نے چین سے نہیں بیٹھنے دیا ایک روز والد صاحب کی کتابوں میں سے جن کا کوئی پرسان حال نہیں تھا ایک کتاب نکالی اور ورق گردانی شروع کی۔

ایک دو پیراگراف پڑھنے سے محسوس ہوا کہ اتنی آسان اردو اور اتنی اچھی تحریر وہ بھی اسلام کے موضوع پر کہ ہر بات دل میں اترتی چلی جائے پوری کتاب پڑھتا چلا گیا۔ اس کا دلنشیں انداز ایسا کہ اسی کو بار بار کئی بار پڑھ گیا۔ نفرتیں ختم ہونے لگیں تعصب کے اندھیرے چھٹنے لگے۔ اور پھر انسیت بڑھتے بڑھتے محبت کا رنگ اختیار کر گئی۔ وہ تفہیم القرآن جسے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ہدیتہ دیا تھا وہ جاکر مکتبہ سے پھر خرید لایا۔ اور گھر میں موجود تمام کتابیں شوق سے پڑھیں بھی اور دوستوں کو جانے انجانے سبھی کو تحفہ بھی دیں۔
وہ پہلی کتاب تھی
“تجدید و احیائے دین” از مولانا سید ابو الاعلی مودودی رح۔
خدا کی رحمتیں ہوں آپ پر سو بار مودودی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!